اس حکمنا مے کو جموں و کشمیر تشکیل نو (اطلاق مرکزی قوانین) آرڈر 2020 کا نام دیا گیا ہے۔
حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ فہرست میں شامل ان مرکزی قوانین کے (کم و بیش ترمیم وتبدیلی کے) اطلاق سے جموں و کشمیر میں انتظامی سطح پر احسن اور مؤثر فیصلے لینے میں حائل رکاوٹیں دور ہو جائیں گی اور آئین ہند سے ان قوانین کے جموں و کشمیر میں اطلاق پر ابہام کو بھی دور کیا جائے گا۔
تاہم ان 37 قوانین میں ’’فارسٹ رایٹس ایکٹ‘‘ کا ذکر نہیں کیا گیا ہے جس سے جموںو کشمیر کے گجر بکروال طبقے کے لوگ مرکزی سرکار سے ناراض ہیں۔
جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد گجر بکروال طبقے کیلئے دفعہ 370 کا ہٹنا باعث امید بھی بنا تھا۔ گجر بکروال طبقے کیلئے ملک میں بنایا گیا قانون فارسٹ رائٹس ایکٹ سنہ 2006 میں لاگو کیا گیا تھا، لیکن جموں وکشمیر میں دفعہ 370 کے باعث یہ قانون مختلف سرکاریں لاگو نہیں کر پاتی تھیں۔
جموں وکشمیر میں گجر بکروال طبقے کے 25 لاکھ کے قریب لوگ آباد ہیں۔ اس آبادی میں اکثر لوگ موسم میں تبدیلی کی وجہ سے اپنے مال مویشیوں کو چرانے کیلئے جنگلوں کا رخ کرتے ہیں۔ آبادی کا برسوں سے مطالبہ رہا ہے کہ انکو جنگلات میں رہنے اور جنگل کے ذخیروں پر چند حقوق دئے جائیں۔
ایک لمبے عرصے کی جد و جہد کے بعد سنہ 2006 میں مرکزی سرکار نے فارسٹ رائٹس ایکٹ لاگو کیا جس میں اس آبادی کے جنگلات پر حقوق واضح کئے گئے تھے۔
کشمیر میں اس طبقے سے وابستہ رضاکاروں اور کارکنوں کا کہنا ہے کہ مرکزی سرکار نے نئے 37 قانون میں سے فارسٹ رایٹس ایکٹ لاگو نہ کرکے انکے ساتھ ناانصافی کی ہے۔
کشمیر یونیورسٹی کے پی ایچ ڈی اسکالر اور گجر بکروال طبقے کے جہد کار زاہد پرواز نے ای ٹی وی بھارت کو فون پر بتایا کہ ’’دفعہ ۳۷۰ کی منسوخی کے بعد اور وزیر اعظم کی تقریر کے بعد ہم امید لگائے بیٹھے تھے کہ اس ایکٹ کو جموں و کشمیر میں بھی نافذ کیا جائے گا۔ لیکن وزارت داخلہ کی نوٹیفیکشن میں اس ایکٹ کا کہیں ذکر ہی نہیں ہے۔ یہ دیکھ کر ہمیں کافی مایوسی ہوئی۔‘‘
انکا مزید کہنا تھا کہ ’ـ’ہمارے طبقے کے ساتھ نا انصافی سے کام لیا جا رہا ہے اور ہمارے ساتھ جھوٹے وعدے کئے جا رہے ہیں۔‘‘