ETV Bharat / jammu-and-kashmir

کشمیر کے میوہ باغ مالکان کو اپنی ہی اراضی سے محروم ہونے کا خوف کیوں ہے؟ - KASHMIRI FARMERS FEAR

کشمیر کے کسانوں نے حکومت کو ترقیاتی منصوبوں کےلئے قابل کاشت زمین کے بجائے بنجر زمین کو ترجیح دینے کا مطالبہ کیا ہے۔

کشمیر کے میوہ باغ مالکان کو اپنی ہی اراضی سے محروم ہونے کا خوف کیوں ہے؟
کشمیر کے میوہ باغ مالکان کو اپنی ہی اراضی سے محروم ہونے کا خوف کیوں ہے؟ (Etv Bharat)
author img

By Mir Farhat Maqbool

Published : 17 hours ago

سری نگر: یونس وانی نے انگریزی مضمون میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی لیکن شومئی قسمت، انہیں سرکاری ملازمت نہیں ملی۔ شوق تھا کہ وہ طلبہ کو انگریزی پڑھاتے لیکن ایسا ان کی قسمت میں نہیں تھا۔ تاہم یونس کی ہمت کم ہوئی اور نہ ہی ان کے حوصلے پست ہوئے۔ انہوں نے سرکاری نوکری کے حصول کی جستجو چھوڑ دی اور پشتوں سے انکے خاندان کی ملکیت میں رہے بادام کے ایک وسیع و عریض باغ کو جدید ترین سیب کے باغ جسے ہائی ڈنسٹی ایپل کہا جاتا ہے، میں تبدیل کردیا۔ اس جدید طریقۂ کار کو اپنانے کیلئے حکومت نے بھی سہولیات فراہم کیں، لیکن اب وانی اپنے فیصلہ پر تزبزب کا شکار ہیں۔

یونس وانی، نیوا پلوامہ میں اپنے ہائی ڈنسٹی ایپل کا باغ دکھا رہے ہیں، جو کہ نئی این آئی ٹی کے لیے مجوزہ مقام ہے۔
یونس وانی، نیوا پلوامہ میں اپنے ہائی ڈنسٹی ایپل کا باغ دکھا رہے ہیں، جو کہ نئی این آئی ٹی کے لیے مجوزہ مقام ہے۔ (Etv Bharat)

انہوں نے جنوبی کشمیر کے پلوامہ ضلع میں نیوہ کے مقام پر اپنی 24 کنال اراضی میں 24 لاکھ روپے کی سرمایہ کاری کی ہے لیکن ایک حکومتی اعلان کے بعد انہیں اس اراضی اور اس سے جڑی روزی روٹی سے بے دخل ہونے کا خطرہ ہے۔ یہ خوف اس وقت شروع ہوا جب جموں و کشمیر حکومت نے مطلع کیا کہ انکے گاؤں کی اراضی نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے نئے کیمپس کے لیے مختص کی جائے گی۔ اس کیمپس کی تعمیر کیلئے 4834 کنال اور 19 مرلے اراضی کی ضرورت ہے۔ ایک ہیکٹئر اراضی میں آٹھ کنال ہوتے ہیں اور بیس مرلوں سے ایک کنال بنتا ہے۔

کشمیر میں ایک نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی، سرینگر میں جھیل ڈل کے کنارے کشمیر یونیورسٹی کے قریب حضرت بل علاقے میں پہلے سے موجود ہے۔ ڈل جھیل کے کنارے واقع یہ ادارہ ہر سال ریاست بھر سے 3000 انجینئرنگ گریجویٹس کو داخلہ دیتا ہے۔ ڈپٹی کمشنر پلوامہ کے نوٹیفکیشن نے نیوہ گاؤں میں خوف اور اضطراب کی لہر دوڑا دی ہے، جس اراضی پر کھیتی ہوتی ہے اور لوگوں کی روزی روٹی جڑی ہوئی ہے، اس زمین پر نئے این آئی ٹی کیمپس کی تعمیر کی تجویز پیش کی گئی ہے۔

نذر الاسلام، اپنے نئے سیب کے باغ میں کھڑے ہیں۔
نذر الاسلام، اپنے نئے سیب کے باغ میں کھڑے ہیں۔ (Etv Bharat)

وانی کہتے ہیں کہ انہوں نے آبائی بادام کے باغ کو ہائی ڈنسٹی ایپل کے باغ میں تبدیل کرنے کیلئے تین سال قبل بینک سے قرض لیا اور 24 لاکھ کی سرمایہ کاری کی۔ ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ اب اس زمین کے بارے میں فکرمند ہیں جس پر انکے خاندان نے کئی دہائیوں سے کاشتکاری کی ہے۔ جموں و کشمیر حکومت نے 2015 میں ہائی ڈینسٹی ایپل اسکیم شروع کی تھی جب سابق ریاست پر پی ڈی پی اور بی جے پی کی مخلوط حکومت برسر اقتدار تھی۔ اسکیم متعارف ہونے کے بعد وادی میں کئی میوہ باغات کے مالکان نے روایتی سیب کے درختوں کو کاٹ کر نئے ہائی ڈنسٹی پودے لگائے جس کا مقصد بہتر آمدنی حاصل کرنا تھا۔ ہائی ڈنسٹی پودے پہلے ہی سال میوہ فصل دیتے ہیں اور اسکی مقدار بھی زیادہ ہوتی ہے جس سے باغ مالکان کی آمدنی میں خاطر خواہ اضافہ ہوتا ہے۔

وانی کی طرح، نیوہ اور دیگر ملحقہ دیہاتوں مثلاً گڈورہ، اوگرگنڈ، کریم آباد، لونہ پورہ، زڈورہ، ڈفر پورہ، مالواری، ارہ ون، پاریگام، کلتریہ، باری گنڈ، بہرام پورہ اور باغات کنی پورہ نامی دیہات کے سینکڑوں کسانوں کو حکومت کی تجویز سے زمین چھن جانے کے خدشات لاحق ہوئے ہیں۔تقریباً دو لاکھ آبادی والے یہ تمام گاؤں ایک اونچی زمینی پٹی، جسے کریوہ کہا جاتا ہے، کے دامن میں آباد ہیں جس کی زرخیز زمین بڈگام سے پلوامہ اضلاع تک پھیلی ہوئی ہے اور ہزاروں کسانوں کے لیے روزی روٹی کا بنیادی ذریعہ ہے۔ یہ کسان کئی دہائیوں سے بادام کے درختوں کی کاشت کرتے ہیں۔ ان کی اکثریت اب سیب کے باغات میں تبدیل ہو رہی ہے۔ اس زمین کا نقصان نہ صرف ان کے معاشی استحکام میں خلل ڈالے گا بلکہ انہی غربت کی جانب بھی دھکیل سکے گا۔

نیوا میں ایک وسیع و عریض ہائی ڈنسٹی ایپل کا باغ، جہاں حکومت نے نیا این آئی ٹی کیمپس تعمیر کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔
نیوا میں ایک وسیع و عریض ہائی ڈنسٹی ایپل کا باغ، جہاں حکومت نے نیا این آئی ٹی کیمپس تعمیر کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ (Etv Bharat)

ایک اور باغ مالک نذر الاسلام نے ای ٹی وی بھارت کے ساتھ گفتگو میں کہا کہ انکے کنبے نے بادام کے باغات کو ہائی ڈنسٹی سیب کے باغات میں تبدیل کرنے کے لیے 50 لاکھ سے زیادہ کی رقوم خرچ کی ہیں۔ پچھلے پانچ سالوں سے، ہم نے اپنی ساری جمع پونچی اور گاڑے پیسے کی کمائی لگائی لیکن اب اسے اندیشوں اور وسوسوں نے آگھیرا ہے۔ تیس کی دہائی کی عمر کے حصے میں نذر الاسلام کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنی تعلیم بھی میوہ باغ کی دیکھ ریکھ کیلئے تیاگ دی تھی لیکن اب سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ کیا کریں۔ ایک ستر سالہ باغ مالک عبدالمجید خان نے بھی اپنی سات کنال اراضی میں 15 لاکھ روپے کی سرمایہ کاری کی تاکہ اعلی معیار کے سیب کی کاشتکاری کرسکیں لیکن جب سے حکومت کا مجوزہ منصوبہ منظر عام پر اایا ہے وہ کافی فکر مند دکھائی دے رہے ہیں۔

ان دیہات میں ماحول عجیب قسم کا ہے۔ عام طور پر کڑاکے کی سردی میں باغ مالکان کو باغوں کی طرف جانے کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ کشمیر میں سبھی درخت پتوں اور میوے کے بغیر ایسے ہوتے ہیں جیسے کہری نیند سورہے ہوں۔ لیکن جب سے ڈپٹی کمشنر پلوامہ کی طرف سے نوٹیفکیشن جاری کیا گیا ہے، کسانوں کو چلہ کلان کی سردی کے باوجود روزان کریوہ میں موجود میوہ باغات کی جانب جاتے ہوئے دیکھا جاتا ہے۔ کئی کسان باغات کا گویا طواف کرتے ہیں۔ چند ایک درختوں کو چومتے اور گلے لگاتے ہوئے بھی دیکھے گئے ۔ کسان دعائیں مانگ رہے ہیں کہ حکومت مجوزہ تعلیمی ادارے کیلئے کوئی متبادل اراضی ڈھونڈ لے ۔ خان نے ای ٹی وہ بھارت کو بتایا کہ وہ ترقی کے خلاف نہیں ہیں، لیکن حکومت کو ان منصوبوں پر عملدرآمد کیلئے کریوہ جیسی قابل کاشت زمین کے بجائے بنجر زمین کو ترجیح دینی چاہیے۔

سیب کے باغات پر زیر تعمیر پلوامہ نیشنل ہائی وے 44۔
سیب کے باغات پر زیر تعمیر پلوامہ نیشنل ہائی وے 44۔ (Etv Bharat)

خان کے خدشات غلط بھی نہیں ہیں۔ ہائی ویز، ریلوے لائنوں اور دیگر صنعتی منصوبوں جیسے میگا پروجیکٹوں کی وجہ سے جموں و کشمیر تیزی سے اپنی زرعی اور باغبانی زمین کھو رہا ہے۔ محکمہ زراعت کے مطابق، دھان کی زمین 2012 میں 162,309 ہیکٹر سے کم ہو کر 2023 میں 129,000 ہیکٹر رہ گئی ہے جو کہ 33,309 ہیکٹر کی کمی ہے۔ اس زمین کے سکڑنے اور تبدیلی کی وجہ سے ماہرین نے وادی میں خوراک کے بحران اور غربت کی پیش گوئی کی ہے جہاں لوگ چاول کو بنیادی خوراک کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور معاش کے لیے سیب کاشت کرتے ہیں۔

اراضی پر قبضے کی مہم جنوبی کشمیر کے پلوامہ، شوپیاں اور اننت ناگ کے اضلاع میں شروع کی گئی ہے جہاں حکومت ایک نئے ریلوے ٹریک اور دو ہائی ویز کی تعمیر کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ پچھلے چند مہینوں سے شوپیاں، پلوامہ، بجبہاڑہ اور کولگام میں کسان 77 کلومیٹر طویل ریلوے ٹریک کی مجوزہ تعمیر کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں جس کیلئے ان اضلاع میں سیب کے باغات اور دھان کی زمین کا سروے کیا جا رہا ہے۔ وزارت ریلوے نے ان اضلاع میں سیب کے باغات کا سروے کیا ہے اور نئی ریل لائن کے لیے ہزاروں کنال اراضی منتقل کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے جو موجودہ ٹریک کو ان اضلاع سے جوڑے گی۔

نیوا گاؤں میں بادام کا باغ جہاں این آئی ٹی کیمپس تعمیر کرنے کی تجویز ہے۔
نیوا گاؤں میں بادام کا باغ جہاں این آئی ٹی کیمپس تعمیر کرنے کی تجویز ہے۔ (Etv Bharat)

ٹرانسپورٹ اور ہائی ویز کے وزیر پلوامہ، شوپیاں کے ذریعے ایک قومی شاہراہ 444 بنا رہے ہیں اور اسے ضلع اننت ناگ میں بجبہاڑہ کے قریب موجودہ سری نگر-جموں ہائی وے سے جوڑیں گے۔ اس شاہراہ نے پہلے ہی کسانوں کو ان کی پیداواری باغبانی اور زرعی اراضی کو قلیل رقم کے عوض ہتھیا لیا ہے۔ حکمران نیشنل کانفرنس کے راجپورہ حلقے کے رکن اسمبلی محی الدین میر حکومت کے منصوبوں کے مخالف ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ سرینگر جموں نیشنل ہائی وے نے کسانوں کی کافی زمین لی ہے۔ اسکے بعد نیشنل ہائی وے 444 نے بھی کسانوں سے کافی اراضی چھین لی۔ اب راجوری سے گلمرگ تک ایک نئی شاہراہ 701 اے تجویز کی جارہی ہے جو سیب کے باغات اور دھان کی زمین پر بنائی جائے گے۔ یہ ترقی کے نام پر کسانوں کی بے دخلی نہیں تو اور کیا ہے؟ ای ٹی وی بھارت کو میر نے بتایا کہ وہ باغات اور دھان کی زمین پر ان منصوبوں کی تعمیر کی شدید مخالفت کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پلوامہ میں این آئی ٹی کے تعمیری منصوبہ پر ملاجلا ردعمل - NIT CONSTRUCTION IN PULWAMA


جب این آئی ٹی کی تجویز کا اعلان کیا گیا تو نیوہ کے باشندے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کی رہائش گاہ پر پہنچ گئے، جنہوں نے انہیں یقین دلایا کہ اس فیصلے پر نظر ثانی کی جائے گی۔ وزیر اعلیٰ بننے کے بعد اپنی پہلی پریس کانفرنس میں انہوں نے کہا کہ اگر پلوامہ (نیوہ) کے لوگ اپنے علاقے میں این آئی ٹی نہیں چاہتے ہیں، تو ہم اسے منتقل کر سکتے ہیں۔ دوسرے اضلاع کے لوگ کھلے دل سے این آئی ٹی کے قیام کا خیر مقدم کریں گے۔ وزیر اعلیٰ نے اس رپورٹر کے سوال کے جواب میں کہا کہ حکومت توازن قائم کرے گی تاکہ پیداواری زمین کو بڑے پیمانے پر تبدیلی اور ترقی سے بچایا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنی ترقی کی ضروریات اور اپنی پیداواری زرعی زمینوں کے تحفظ کے درمیان توازن تلاش کرنا ہو گا۔ نیوہ اور جنوبی کشمیر کے دیگر علاقوں کے لوگ اب بے صبری سے انتظار کر رہے ہیں کہ وزیر اعلیٰ ان کو بے زمین ہونے سے بچانے کے لیے اپنے الفاظ کو سچ ثابت کریں گے۔

سری نگر: یونس وانی نے انگریزی مضمون میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی لیکن شومئی قسمت، انہیں سرکاری ملازمت نہیں ملی۔ شوق تھا کہ وہ طلبہ کو انگریزی پڑھاتے لیکن ایسا ان کی قسمت میں نہیں تھا۔ تاہم یونس کی ہمت کم ہوئی اور نہ ہی ان کے حوصلے پست ہوئے۔ انہوں نے سرکاری نوکری کے حصول کی جستجو چھوڑ دی اور پشتوں سے انکے خاندان کی ملکیت میں رہے بادام کے ایک وسیع و عریض باغ کو جدید ترین سیب کے باغ جسے ہائی ڈنسٹی ایپل کہا جاتا ہے، میں تبدیل کردیا۔ اس جدید طریقۂ کار کو اپنانے کیلئے حکومت نے بھی سہولیات فراہم کیں، لیکن اب وانی اپنے فیصلہ پر تزبزب کا شکار ہیں۔

یونس وانی، نیوا پلوامہ میں اپنے ہائی ڈنسٹی ایپل کا باغ دکھا رہے ہیں، جو کہ نئی این آئی ٹی کے لیے مجوزہ مقام ہے۔
یونس وانی، نیوا پلوامہ میں اپنے ہائی ڈنسٹی ایپل کا باغ دکھا رہے ہیں، جو کہ نئی این آئی ٹی کے لیے مجوزہ مقام ہے۔ (Etv Bharat)

انہوں نے جنوبی کشمیر کے پلوامہ ضلع میں نیوہ کے مقام پر اپنی 24 کنال اراضی میں 24 لاکھ روپے کی سرمایہ کاری کی ہے لیکن ایک حکومتی اعلان کے بعد انہیں اس اراضی اور اس سے جڑی روزی روٹی سے بے دخل ہونے کا خطرہ ہے۔ یہ خوف اس وقت شروع ہوا جب جموں و کشمیر حکومت نے مطلع کیا کہ انکے گاؤں کی اراضی نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے نئے کیمپس کے لیے مختص کی جائے گی۔ اس کیمپس کی تعمیر کیلئے 4834 کنال اور 19 مرلے اراضی کی ضرورت ہے۔ ایک ہیکٹئر اراضی میں آٹھ کنال ہوتے ہیں اور بیس مرلوں سے ایک کنال بنتا ہے۔

کشمیر میں ایک نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی، سرینگر میں جھیل ڈل کے کنارے کشمیر یونیورسٹی کے قریب حضرت بل علاقے میں پہلے سے موجود ہے۔ ڈل جھیل کے کنارے واقع یہ ادارہ ہر سال ریاست بھر سے 3000 انجینئرنگ گریجویٹس کو داخلہ دیتا ہے۔ ڈپٹی کمشنر پلوامہ کے نوٹیفکیشن نے نیوہ گاؤں میں خوف اور اضطراب کی لہر دوڑا دی ہے، جس اراضی پر کھیتی ہوتی ہے اور لوگوں کی روزی روٹی جڑی ہوئی ہے، اس زمین پر نئے این آئی ٹی کیمپس کی تعمیر کی تجویز پیش کی گئی ہے۔

نذر الاسلام، اپنے نئے سیب کے باغ میں کھڑے ہیں۔
نذر الاسلام، اپنے نئے سیب کے باغ میں کھڑے ہیں۔ (Etv Bharat)

وانی کہتے ہیں کہ انہوں نے آبائی بادام کے باغ کو ہائی ڈنسٹی ایپل کے باغ میں تبدیل کرنے کیلئے تین سال قبل بینک سے قرض لیا اور 24 لاکھ کی سرمایہ کاری کی۔ ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ اب اس زمین کے بارے میں فکرمند ہیں جس پر انکے خاندان نے کئی دہائیوں سے کاشتکاری کی ہے۔ جموں و کشمیر حکومت نے 2015 میں ہائی ڈینسٹی ایپل اسکیم شروع کی تھی جب سابق ریاست پر پی ڈی پی اور بی جے پی کی مخلوط حکومت برسر اقتدار تھی۔ اسکیم متعارف ہونے کے بعد وادی میں کئی میوہ باغات کے مالکان نے روایتی سیب کے درختوں کو کاٹ کر نئے ہائی ڈنسٹی پودے لگائے جس کا مقصد بہتر آمدنی حاصل کرنا تھا۔ ہائی ڈنسٹی پودے پہلے ہی سال میوہ فصل دیتے ہیں اور اسکی مقدار بھی زیادہ ہوتی ہے جس سے باغ مالکان کی آمدنی میں خاطر خواہ اضافہ ہوتا ہے۔

وانی کی طرح، نیوہ اور دیگر ملحقہ دیہاتوں مثلاً گڈورہ، اوگرگنڈ، کریم آباد، لونہ پورہ، زڈورہ، ڈفر پورہ، مالواری، ارہ ون، پاریگام، کلتریہ، باری گنڈ، بہرام پورہ اور باغات کنی پورہ نامی دیہات کے سینکڑوں کسانوں کو حکومت کی تجویز سے زمین چھن جانے کے خدشات لاحق ہوئے ہیں۔تقریباً دو لاکھ آبادی والے یہ تمام گاؤں ایک اونچی زمینی پٹی، جسے کریوہ کہا جاتا ہے، کے دامن میں آباد ہیں جس کی زرخیز زمین بڈگام سے پلوامہ اضلاع تک پھیلی ہوئی ہے اور ہزاروں کسانوں کے لیے روزی روٹی کا بنیادی ذریعہ ہے۔ یہ کسان کئی دہائیوں سے بادام کے درختوں کی کاشت کرتے ہیں۔ ان کی اکثریت اب سیب کے باغات میں تبدیل ہو رہی ہے۔ اس زمین کا نقصان نہ صرف ان کے معاشی استحکام میں خلل ڈالے گا بلکہ انہی غربت کی جانب بھی دھکیل سکے گا۔

نیوا میں ایک وسیع و عریض ہائی ڈنسٹی ایپل کا باغ، جہاں حکومت نے نیا این آئی ٹی کیمپس تعمیر کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔
نیوا میں ایک وسیع و عریض ہائی ڈنسٹی ایپل کا باغ، جہاں حکومت نے نیا این آئی ٹی کیمپس تعمیر کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ (Etv Bharat)

ایک اور باغ مالک نذر الاسلام نے ای ٹی وی بھارت کے ساتھ گفتگو میں کہا کہ انکے کنبے نے بادام کے باغات کو ہائی ڈنسٹی سیب کے باغات میں تبدیل کرنے کے لیے 50 لاکھ سے زیادہ کی رقوم خرچ کی ہیں۔ پچھلے پانچ سالوں سے، ہم نے اپنی ساری جمع پونچی اور گاڑے پیسے کی کمائی لگائی لیکن اب اسے اندیشوں اور وسوسوں نے آگھیرا ہے۔ تیس کی دہائی کی عمر کے حصے میں نذر الاسلام کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنی تعلیم بھی میوہ باغ کی دیکھ ریکھ کیلئے تیاگ دی تھی لیکن اب سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ کیا کریں۔ ایک ستر سالہ باغ مالک عبدالمجید خان نے بھی اپنی سات کنال اراضی میں 15 لاکھ روپے کی سرمایہ کاری کی تاکہ اعلی معیار کے سیب کی کاشتکاری کرسکیں لیکن جب سے حکومت کا مجوزہ منصوبہ منظر عام پر اایا ہے وہ کافی فکر مند دکھائی دے رہے ہیں۔

ان دیہات میں ماحول عجیب قسم کا ہے۔ عام طور پر کڑاکے کی سردی میں باغ مالکان کو باغوں کی طرف جانے کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ کشمیر میں سبھی درخت پتوں اور میوے کے بغیر ایسے ہوتے ہیں جیسے کہری نیند سورہے ہوں۔ لیکن جب سے ڈپٹی کمشنر پلوامہ کی طرف سے نوٹیفکیشن جاری کیا گیا ہے، کسانوں کو چلہ کلان کی سردی کے باوجود روزان کریوہ میں موجود میوہ باغات کی جانب جاتے ہوئے دیکھا جاتا ہے۔ کئی کسان باغات کا گویا طواف کرتے ہیں۔ چند ایک درختوں کو چومتے اور گلے لگاتے ہوئے بھی دیکھے گئے ۔ کسان دعائیں مانگ رہے ہیں کہ حکومت مجوزہ تعلیمی ادارے کیلئے کوئی متبادل اراضی ڈھونڈ لے ۔ خان نے ای ٹی وہ بھارت کو بتایا کہ وہ ترقی کے خلاف نہیں ہیں، لیکن حکومت کو ان منصوبوں پر عملدرآمد کیلئے کریوہ جیسی قابل کاشت زمین کے بجائے بنجر زمین کو ترجیح دینی چاہیے۔

سیب کے باغات پر زیر تعمیر پلوامہ نیشنل ہائی وے 44۔
سیب کے باغات پر زیر تعمیر پلوامہ نیشنل ہائی وے 44۔ (Etv Bharat)

خان کے خدشات غلط بھی نہیں ہیں۔ ہائی ویز، ریلوے لائنوں اور دیگر صنعتی منصوبوں جیسے میگا پروجیکٹوں کی وجہ سے جموں و کشمیر تیزی سے اپنی زرعی اور باغبانی زمین کھو رہا ہے۔ محکمہ زراعت کے مطابق، دھان کی زمین 2012 میں 162,309 ہیکٹر سے کم ہو کر 2023 میں 129,000 ہیکٹر رہ گئی ہے جو کہ 33,309 ہیکٹر کی کمی ہے۔ اس زمین کے سکڑنے اور تبدیلی کی وجہ سے ماہرین نے وادی میں خوراک کے بحران اور غربت کی پیش گوئی کی ہے جہاں لوگ چاول کو بنیادی خوراک کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور معاش کے لیے سیب کاشت کرتے ہیں۔

اراضی پر قبضے کی مہم جنوبی کشمیر کے پلوامہ، شوپیاں اور اننت ناگ کے اضلاع میں شروع کی گئی ہے جہاں حکومت ایک نئے ریلوے ٹریک اور دو ہائی ویز کی تعمیر کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ پچھلے چند مہینوں سے شوپیاں، پلوامہ، بجبہاڑہ اور کولگام میں کسان 77 کلومیٹر طویل ریلوے ٹریک کی مجوزہ تعمیر کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں جس کیلئے ان اضلاع میں سیب کے باغات اور دھان کی زمین کا سروے کیا جا رہا ہے۔ وزارت ریلوے نے ان اضلاع میں سیب کے باغات کا سروے کیا ہے اور نئی ریل لائن کے لیے ہزاروں کنال اراضی منتقل کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے جو موجودہ ٹریک کو ان اضلاع سے جوڑے گی۔

نیوا گاؤں میں بادام کا باغ جہاں این آئی ٹی کیمپس تعمیر کرنے کی تجویز ہے۔
نیوا گاؤں میں بادام کا باغ جہاں این آئی ٹی کیمپس تعمیر کرنے کی تجویز ہے۔ (Etv Bharat)

ٹرانسپورٹ اور ہائی ویز کے وزیر پلوامہ، شوپیاں کے ذریعے ایک قومی شاہراہ 444 بنا رہے ہیں اور اسے ضلع اننت ناگ میں بجبہاڑہ کے قریب موجودہ سری نگر-جموں ہائی وے سے جوڑیں گے۔ اس شاہراہ نے پہلے ہی کسانوں کو ان کی پیداواری باغبانی اور زرعی اراضی کو قلیل رقم کے عوض ہتھیا لیا ہے۔ حکمران نیشنل کانفرنس کے راجپورہ حلقے کے رکن اسمبلی محی الدین میر حکومت کے منصوبوں کے مخالف ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ سرینگر جموں نیشنل ہائی وے نے کسانوں کی کافی زمین لی ہے۔ اسکے بعد نیشنل ہائی وے 444 نے بھی کسانوں سے کافی اراضی چھین لی۔ اب راجوری سے گلمرگ تک ایک نئی شاہراہ 701 اے تجویز کی جارہی ہے جو سیب کے باغات اور دھان کی زمین پر بنائی جائے گے۔ یہ ترقی کے نام پر کسانوں کی بے دخلی نہیں تو اور کیا ہے؟ ای ٹی وی بھارت کو میر نے بتایا کہ وہ باغات اور دھان کی زمین پر ان منصوبوں کی تعمیر کی شدید مخالفت کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پلوامہ میں این آئی ٹی کے تعمیری منصوبہ پر ملاجلا ردعمل - NIT CONSTRUCTION IN PULWAMA


جب این آئی ٹی کی تجویز کا اعلان کیا گیا تو نیوہ کے باشندے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کی رہائش گاہ پر پہنچ گئے، جنہوں نے انہیں یقین دلایا کہ اس فیصلے پر نظر ثانی کی جائے گی۔ وزیر اعلیٰ بننے کے بعد اپنی پہلی پریس کانفرنس میں انہوں نے کہا کہ اگر پلوامہ (نیوہ) کے لوگ اپنے علاقے میں این آئی ٹی نہیں چاہتے ہیں، تو ہم اسے منتقل کر سکتے ہیں۔ دوسرے اضلاع کے لوگ کھلے دل سے این آئی ٹی کے قیام کا خیر مقدم کریں گے۔ وزیر اعلیٰ نے اس رپورٹر کے سوال کے جواب میں کہا کہ حکومت توازن قائم کرے گی تاکہ پیداواری زمین کو بڑے پیمانے پر تبدیلی اور ترقی سے بچایا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنی ترقی کی ضروریات اور اپنی پیداواری زرعی زمینوں کے تحفظ کے درمیان توازن تلاش کرنا ہو گا۔ نیوہ اور جنوبی کشمیر کے دیگر علاقوں کے لوگ اب بے صبری سے انتظار کر رہے ہیں کہ وزیر اعلیٰ ان کو بے زمین ہونے سے بچانے کے لیے اپنے الفاظ کو سچ ثابت کریں گے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.