انتظامیہ کی طرف سے مرتب شاہ فیصل پر عائد پی ایس اے کے ڈوزیئر میں کہا گیا ہے کہ وہ سوشل میڈیا پر اشتعال انگیز بیانات دے رہے تھے۔
ڈوزیئر میں کہا گیا ہے کہ شاہ فیصل سوشل میڈیا پوسٹز کے ذریعے نرم علیحدگی پسندی کے نظریہ کی حمایت کرتا ہے، اسے متعدد بار لوگوں کی طرف سے مثبت جواب ملا ہے اور عوامی نظم و ضبط کو خطرہ لاحق ہوا ہے'۔
ڈوزیئر کے مطابق شاہ فیصل کے متعلق خدشہ تھا کہ 'اگر انہیں رہا کیا گیا ، تو وہ کسی طرح کا بیان دیتے جس سے وادی میں امن و امان میں خلل پڑ سکتا'۔
ڈوزیئر میں کہا گیا ہے کہ کشمیر میں سیکیورٹی صورتحال بہتر ہوئی ہے اور معمولات زندگی معمول پر ہے تاہم حال ہی میں متعدد افواہیں پھیلائی گئی جس سے کشیدہ صورتحال پیدا ہوگئی۔ اس کے پس منظر انتظامیہ خدشہ ظاہر کیا کہ ڈاکٹر شاہ فیصل کوئی بیان دیں گے جس سے نظم و ضبط خلل پیدا کرسکتا ہے، اس کی بنیاد پر شاہ فیصل پر پی ایس اے لگایا گیا۔
شاہ فیصل کو 14 اگست کے روز دہلی ائیر پورٹ سے حراست میں لیا گیا تھا۔ جس کے بعد انہیں دہلی سے سرینگر واپس لایا گیا اور تب وہ نظر بند ہیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ برس 5 اگست کو مرکزی حکومت کی جانب سے دفعہ 370 کو منسوخ کرنے اور ریاست کو دو مرکزی علاقوں میں تقسیم کر دیا۔ اس فیصلے سے قبل اور بعد میں درجنوں ہند نواز سیاسی رہنماؤں کے علاوہ علیحدگی پسند رہنما، وکلا، تاجر سمیت تقریباً 4 ہزار افراد کو حراست میں لیا تھا۔
گرچہ گرفتار شدگان میں سے متعدد افراد کو رہا کیا گیا، تاہم تین سابق وزرائے اعلیٰ، کئی سابق کابینہ وزرا اور علیحدگی پسند رہنما ابھی بھی نظر بند ہیں۔
فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی کے علاوہ علی محمد ساگر، سرتاج مدنی، نعیم اختر، ہلال اکبر لون پر پی ایس اے عائد کرکے ان کی معیادِ نظر بندی میں مزید توسیع کردی ہے۔
انتظامیہ نے ان رہنماؤں پر عائد کردہ پی ایس اے کے ڈوزیئر جاری کیے ہیں۔
عمر عبداللہ پر عائد پی ایس اے کے ڈوزیئر میں کہا گیا ہے کہ وہ ملی ٹینسی کے عروج اور چناؤ بائیکاٹ کے باوجود بھی ووٹ بٹورنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان پر یہ بھی الزام لگایا گیا ہے کہ انہوں نے ٹویٹر کے ذریعے لوگوں کو ملک کی سالمیت اور مرکزی حکومت کی طرف سے آئینی دفعات 370 اور 35 اے کی تنسیخ کے خلاف اکسایا جبکہ محبوبہ مفتی پر عائد پی ایس اے کے ڈوزیئر میں کہا گیا ہے کہ وہ علیحدگی پسندوں کی ساتھی اور اپنے والد کی لاڈلی ہیں۔