پروفیسر سید مخمور حسین بدخشی کے انتقال پر وادی کشمیر کے ادبی حلقوں نے سخت رنج وغم کا اظہار کیا ہے وہیں جموں و کشمیر اردو کونسل کے جملہ اراکین و ذمہ داران نے بھی مخمور بدخشی کی اردو زبان کے تئیں خدمات کو یاد کرتے ہوئے انکے انتقال کو نا قابل تلافی نقصان سے تعبیر کیا ہے۔
پروفیسر سید مخمور حسین بدخشی اردو زبان و ادب کے ایک انتہائی مخلص شیدائی تھے جنہوں نے اپنی ساری زندگی اردو زبان و ادب کی خدمت میں گزاری ہے۔ اسلامیہ کالج سرینگر میں اردو زبان کے پروفیسر کے عہدے پر فائز رہتے ہوئے سید مخمور حسین نے ہزاروں نوجوانوں کو اردو زبان و ادب سے آشنا کرایا۔
مرحوم ماہر افسانہ نگاروں میں شمار ہوتے ہیں اور طالب علمی کے زمانے سے ہی اردو میں افسانے لکھنے میں دلچسپی رکھتے تھے۔ مرحوم پوری زندگی نام اور شہرت کے قائل نہیں رہے جس کی وجہ سے ان کے کئی بہترین افسانے منظر عام نہیں آئے۔
پروفیسر مخمور حسین بدخشی ایک خود دار اور باغیرت انسان ہونے کے ساتھ ساتھ شریف الفنس شخصیت کے مالک تھے۔ اسی بنا پر مرحوم سرکاری تقاریب اور دیگر ادبی اداروں میں داخلے سے پرہیز ہی کرتے رہے۔
مزید پڑھیں: راہل گاندھی کا 9 اگست کو سرینگر کا دورہ
مخمور حسین بدخشی وادی کشمیر کے ان قلمکاروں میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے کشمیر میں اردو افسانہ نگاری کی بنیاد ڈالی اور مرحوم افسانہ نگاری میں پروفیسر حامدی کشمیری اور نور شاہ جیسے ادیبوں کے ہم عصر رہے ہیں۔ البتہ مخمور کا قلم مختصر وقت کے بعد ہی خاموش ہوگیا۔ جبکہ دیگر افراد افسانہ نگاری میں طبع آزمائی کرتے رہے یہاں تک کہ ان کے ہم عصر نثر نگار اور افسانہ نگاروں کی تحریریں آج بھی شائع ہوتی رہتی ہیں۔
مخمور بدخشی کی ’’نیل کنول مسکائے‘‘ منظر عام پر آنے کے بعد مزید کوئی بھی تحریر کتابی صورت میں منظر عام پر نہ آ سکی۔ ’’نیل کنول مسکائے‘‘ نام کا افسانوی مجموعہ بدخشی کی ان دنوں کی تحریروں پر مشتمل ہے جب وہ نوجوان تھے۔