جموں و کشمیر میں سات نئے اسمبلی حلقوں کے قیام کے لئے تنظیم نو ایکٹ 2019 کے تحت قائم کیے گئے حد بندی کمیشن نے آج سے یونین ٹریٹری کا چار روزہ دورہ شروع کیا۔ دورے کے پہلے روز کمیشن نے سرینگر میں متعدد سیاسی جماعتوں کے نمائندوں سے ملاقات کی۔
جسٹس (ر) رنجنا پرکاش دیسائی کی قیادت میں کمشن میں چیف الیکشن کمشنر (سی ای سی) سشیل چندر اور ڈپٹی الیکشن کمشنر چندر بھوشن اور سٹیٹ الیکشن کمیشنر کے کے شرما شامل ہیں۔ اس وفد نے منگل کو سیاسی جماعتوں سے ملاقات کی۔ بدھ کو یہ وفد پہلگام اور سرینگر میں ضلع کمشنرز جو متعلقہ ضلعوں کے ڈپٹی الیکشن افسر بھی ہیں، سے ملاقات کرے گا۔
جمعرات کو جموں صوبے میں کمشن مختلف سیاسی وفود سے کشتواڑ اور جموں ضلعوں میں ملاقات کرے گا۔
نیشنل کانفرنس کے وفد کی صدارت سابق وزیر خزانہ عبد الرحیم راتھر نے کی۔ انہوں نے کہا کہ کمیشن کو کوئی ایسا قدم نہیں اُٹھانا چاہئے جس سے جموں و کشمیر کے تشخص کو زک پہنچے۔ نیشنل کانفرنس حد بندی کے حق میں نہیں ہے کیونکہ جس قانون کے تحت حد بندی کی جا رہی ہے وہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر تنظیم نو ایکٹ نیشنل کانفرنس کو منظور نہیں ہے اور نہ ہی یہاں کی عوام اس کی حمایت میں ہیں۔
پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی نے کشمن سے ملاقات کرنے سے انکار کیا اور کہا کہ اس کا قیام غیر آئینی ہے۔ پردیش کانگرس کمیٹی کی صدارت غلام احمد میر کر رہے تھے۔ انکا کہنا تھ کہ جب تک جموں و کشمیر کا ریاستی درجہ بحال نہیں کیا جاتا تب تک حد بندی کا کوئی جواز نہیں بنتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کمیشن نے ایک سال سے زیادہ عرصہ سے جموں و کشمیر میں ایکزرسائز کی ہے اس کو عوام کے سامنے پیش کیا جانا چاہئے تبھی کانگریس پارٹی کو تجویز پیش کر سکتی ہے۔
بی جے پی وفد حد بندی کمیشن سے ملاقی ہوا ہے۔ پارٹی کے ریاستی ترجمان الطاف ٹھاکر نے کہا ماضی میں جو حد بندی ہوئی تھی وہ جموں و کشمیر کے دو خاندانوں کو فائدہ پہنچانے کے لئے کی گئی تھی۔ انہوں نے کہا کمیشن کو بتایا گیا کہ قبائلی آبادی کے لئے آٹھ سے نو سیٹیں مختص ہونی چاہئے۔
سی پی آئی (ایم) کا وفد حد بندی کمیشن سے ملاقی ہوا۔ وفد کی صدارت جی ایم ملک کر رہے تھے۔ انہوں نے بعدازاں میڈیا کو بتایا کہ انہوں نے وفد کے سامنے عوامی امنگوں کو رکھا اور اپیل کی کہ کمیشن کی حتمی رپورٹ عوامی خواہشات کے مطابق ہونی چاہئے۔
واضح رہے سنہ 2002 میں فاروق عبد اللہ کی حکومت نے حد بندی پر سنہ 2026 تک پابندی عائد کر دی تھی۔ تاہم تنظیم نو قانون کے اطلاق کے بعد مرکزی سرکار نے جموں و کشمیر میں نئے اسمبلی حلقوں کے قیام کے لیے حد بندی کمیشن تشکیل دے کر یونین ٹیریٹری میں مزید سات سیٹوں کا اضافہ کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔
سابق ریاست جموں و کشمیر میں اسمبلی حلقوں کی تعداد 111 تھی جن میں 87 پر ہی انتخابات منعقد ہوتے تھے کیونکہ 24 سیٹوں کو اس پار والے کشمیر کی آبادی کے لیے مخصوص رکھا جاتا ہے۔
جموں و کشمیر (بشمول لداخ) میں سنہ 1994 میں آخری حد بندی ہوئی تھی جس میں اسمبلی حلقوں کی تعداد 76 سے 87 کر دی گئی تھی۔ جموں خطے میں پانچ سیٹوں کا اضافہ ہوا جس سے اس صوبے میں حلقوں کی تعداد 32 سے 37 ہوئی، جبکہ وادی میں چار سیٹوں کے اضافے سے سیٹوں کی تعداد 42 سے 46 ہوئی۔
نئی حد بندی میں سات مزید سیٹوں کے قیام کا منصوبہ ہے جس سے یو ٹی جموں و کشمیر میں سیٹوں کی کل تعداد 90 تک پہنچ جائے گی۔