ای ٹی وی بھارت کے ساتھ کی گئی ایک خصوصی گفتگو کے دوران پرویز کا کہنا تھا کہ " بھارت سرکار اس وقت جواب ہی سے پرہیز ضروری کررہی ہیں لیکن انسانی حقوق پر کام کرنے والے ادارے ان سے سوال پوچھتے رہیں۔"
نمائندہ: اقوام متحدہ کی جانب سے گزشتہ روز تیسری بار کشمیر میں مبینہ طور پر ہورہی انسانی حقوق کی پامالیوں کی رپورٹ منظر عام پر لائی گئی۔ اس خط کے منظر عام پر آنے کے بعد کیا نتائج مرتب ہو سکتے ہیں؟
خرم: دیکھیے یہ جو سلسلہ اقوام متحدہ کی جانب سے شروع کیا گیا ہے جس میں انہوں نے کشمیر کے حوالے سے دو رپورٹ تیار کی۔ ایک 2018 میں اور ایک 2019 میں۔ اس کے بعد متعدد بار انہوں نے بھارت سرکار کو انسانی حقوق کے تعلق سے خط لکھیں اور ان سے جواب طلب کیا ہے۔ ہر بار بھارت سرکار کوشش کر رہی ہے کہ وہ جواب نہ دے۔ خاص طور گزشتہ برس ہوا یہ واقعہ اپریل کے مہینے میں بھارت سرکار نے ایک ختم جواب لکھا کہ اقوام متحدہ کے ادارے کشمیر کے معاملے کو لے کر جانبدار (biased) ہیں، بھارت کے خلاف ہیں۔ اس وجہ سے بھارت سرکار اقوام متحدہ کے ساتھ تعاون نہیں کرے گی۔ایک طرف بھارت چاہتا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کا مستقل رکن بنے اور دوسری طرف اقوام متحدہ کے جو انسانی حقوق کے معاملات پر کام کر رہے اداروں کے ساتھ تعاون بھی نہیں کریں گے۔ کیونکہ اقوام متحدہ کی جانب سے جو سوال پوچھے جا رہے ہیں وہ بھارت کے ذاتی معاملے ہیں۔ ہمارا ماننا ہے کہ انسانی حقوق کی پامالی جس ملک میں ہو رہی ہو وہ ان کا اندرونی یا ذاتی معاملہ نہیں ہو سکتا۔ انسانی حقوق عالمی مسئلہ ہے اور اس پر کام کر رہے اداروں کو سوال پوچھنے چاہیے اور جس ملک پر سوال اٹھ رہے ہیں یا نہیں جواب دینا چاہیے۔ یہ سوال بار بار دیکھیں گے۔ بھارت سرکار کے لیے بہتر یہ ہوگا کہ وہ یہاں کی صورتحال کو تبدیل کریں۔ جہاں جو انسانی حقوق کی پامالیوں کے معاملے ہیں ان میں کمی لانے کے لیے اقدامات اٹھائے جائیں۔ لیکن دیکھا جا رہا ہے کی معاملات میں اضافہ ہو رہا ہے کمی نہیں۔
کشمیر میں ’انسانی حقوق کی پامالیاں‘، اقوام متحدہ کا بھارت کے نام خط
نمائندہ: اقوام متحدہ کے خط میں جن معاملات کا ذکر کیا گیا ہے وہ کتنے حد تک صحیح ہے؟ کیا آپ نے ذاتی طور پر ان معاملات کی جانکاری حاصل کی ہے؟
خرم پرویز: جن سب معاملات کا ذکر اقوام متحدہ کے خط میں کیا گیا ہے ہم ان سب سے واقف ہیں۔ ہم ان سب سے ملے بھی ہیں۔ یہ سب معاملے بالکل مصدقہ ہیں۔ ان معاملوں میں کوئی ایک معاملہ ایسا نہیں ہے جس میں انتظامیہ نے تحقیقات کی ہو۔ اگر تحقیقات ہوئی ہوتی تو پتہ چلتا کہ سچائی کیا ہے۔ تبھی جا کر کوئی امکان تھا کہ انہیں انصاف ملے گا۔ تبھی جا کے کوئی امکان تھا کہ ایسے معاملے دوبارہ رونما نہ ہوں۔ ہو یہ رہا ہے کی سرکار تحقیقات ہی نہیں کر رہی۔ اگر آپ دیکھیں حالیہ دنوں میں بھی سوپور میں ایک واقعہ پیش آیا جس میں ایک عام شہری بشیر احمد خان کو ہلاک کیا گیا۔ ان کے رشتہ دار صرف اتنا چاہتے ہیں کہ تحقیقات ہو۔ انتظامیہ نے ہلاکت کے پندرہ منٹ بعد ہی دعوی کیا کہ انہیں عسکریت پسندوں نے مارا ہے تحقیقات کی ضرورت نہیں۔ جب صورت حال ایسی ہو جہاں انتظامیہ تحقیقات کرنے سے دور بھاگ رہی ہو وہاں آپ انصاف کی امید کہاں کر سکتے ہیں'۔
نمائندہ: بھارت اس وقت اقوام متحدہ کا عارضی رکن بن چکا ہے۔ کیا آپ کو لگتا ہے کہ اب بھارت سرکار پر جواب دینا اخلاقی ذمہ داری ہے؟
خرم پرویز: اقوام متحدہ کا عارضی رکن بھارت 8 بار بن چکا ہے۔ پاکستان اور دیگر ممالک بھی عارضی رکن بن چکے ہیں۔ ہمارے لیے وہ کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ لیکن بھارت نے انسانی حقوق کے تعلق سے جتنے بھی قوانین عالمی سطح پر بنائے گئے ہیں ان پر دستخط کیا ہے۔ بھارت نے پوری دنیا سے ایک عہد کیا ہے کہ وہ ان کے زیر انتظام علاقوں میں انسانی حقوق کی پامالیاں نہیں ہونے دیں گے۔ تو بھارت سرکار جواب دیے ہے عالمی اداروں خاص طور پر اقوام متحدہ کے سامنے۔ یہ تو سنگین الزامات ان پر عائد کیے گئے ہیں انہیں اس کا جواب دہی کرنی ہوگی۔ جواب دہی سے پرہیز کرنا بھارت کے حق میں نہیں ہیں اور انہیں امید بھی نہیں کرنی چاہیے کہ ان کی نکتہ چینی کرنے والے خاموش بیٹھے رہیں گے۔ خاص طور پر تب جب بھارت اقوام متحدہ میں مستقل رکنیت حاصل کرنے کے لیے کوشش کر رہا ہوں۔ کیونکہ ان سے بار بار یہ سوال پوچھے جائیں گے اور یہ بھی کہا جائے گا کہ بھارت اقوام متحدہ کی قرارداد پر عمل تو نہیں کر رہا لیکن مستقل رکنیت کا خواہشمند ہے۔
نمائندہ: بھارت سرکار وادی میں انسانی حقوق کی پامالیوں کی روک تھام کرے۔ اس تعلق سے اقوام متحدہ کیا اقدامات اٹھا سکتا ہے؟
خرم پرویز: 'کسی کے پاس کوئی جادوئی چھڑی تو نہیں ہے۔ ہندوستان یا کوئی بھی ملک اگر انسانی حقوق کی پامالیوں کو ختم کرنے کرنے سے پرہیز کر رہا ہوں یا کوئی ٹھوس اقدامات نہ اٹھا رہا ہوں تو آپ ان کو مجبور کر دیں۔ ہمارے پاس صرف ایک ہی راستہ ہے کہ اپنی جنگ جاری رکھیں۔ اپنے سوالات اور اپنے کام کو زندہ رکھیں۔ سوال پوچھتے رہے۔ ایک نا ایک دن وہ وقت ضرور آئے گا جب بھارت سرکار کو خود ہی لگنے لگے گا کہ یہ جو انسانی حقوق کی پامالیاں ہو رہے ہیں یا ان کے بھی حق میں نہیں ہے۔ ان کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔'