انسان اور مٹی کے برتن کا بہت قدیم رشتہ رہا ہے۔ دور قدیم سے ہی مٹی کے برتنوں کا استعمال بڑھ چڑھ کر کیا جاتا تھا۔ تاہم تیزی سے ہو رہی ترقی نے اس کاروبار پر بھی اپنے اثرات مرتب کئے ہیں۔
مٹی کے برتن جن میں پیالے، گلاس، مٹکے، گملے وغیرہ شامل ہیں کی جگہ اب پلاسٹک، اسٹیل، تانبہ اور چینی کے برتنوں نے لے لی ہے جس کی وجہ سے اس صنعت سے وابستہ افراد کی مالی حالت بد سے بدتر ہوتی جارہی ہیں۔
مٹی سے برتن بنانے والے کاریگر کو کمہار کہا جاتا ہے۔ یہ برادری کشمیر کے مختلف علاقوں میں رہتی ہے۔ مٹی سے برتن بنانے کا ہنر دنیا کے ہر معاشرے میں موجود رہا ہے لیکن برصغیر میں اس فن نے عروج حاصل کیا۔
کمہار کو دنیا کا پہلا فنکار کہا جا سکتا ہے جس کو چیزوں کو نئے وجود میں ڈھالنا ہوتا تھا۔ یہ لوگ کافی ذہین ہوتے ہیں اور ان کی ذہانت کا ثبوت ان کے کام کو دیکھ کر پتہ چلتا تھا۔
تاریخی لحاظ سے مٹی کے برتنوں کو بہت ہی خاص اہمیت حاصل ہے۔ انسانی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ تاریخی اعتبار سے انسان نے کھانے پینے کے لئے مٹی کے برتنوں کا ہی استعمال شروع کیا۔
یہ بھی پڑھیں: پنچکی بند ہونے کے دہانے پر
موجودہ دور میں مٹی کے برتن کا استعمال بالکل ختم ہوچکا ہے اور مٹی کے برتنوں کی جگہ اسٹیل، پلاسٹک، پیتل اور دھاتوں سے بنے ہوئے برتنوں نے لی ہے۔
محمد احسن نامی کمہار نے بتایا کہ 'لوگ اب مٹی کے برتنوں کا استعمال نہیں کر رہے ہیں جسکی وجہ سے ہماری صنعت ختم ہوتی جارہی ہیں اور ہم اب اس کاروبار سے اپنی ضروریات پوری نہیں کرپا رہے ہیں۔'
یہ بھی پڑھیں: بڈگام: آج بھی روایتی چکی کا چلن
عبدلاحد نامی کمہار کہتے ہیں کہ 'دور جدید نے ان کے کاروبار پر منفی اثر ڈالا ہے۔ مٹی کے برتنوں کی جگہ اب پلاسٹک اور اسٹیل سے بنے برتنوں نے لے لی ہیں۔ لوگ اب مٹی کے برتنوں کا استعمال بالکل بھی نہیں کرتے ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ مٹی کے برتن بنانے کا فن بھی ختم ہوتا جا رہا ہے۔'
ظروف سازی جیسی قدیم صنعت کو حکومتی سطح پر نظرانداز کیے جانے کے بعد سے یہ زوال کا شکار ہے۔ ماہر کاریگر یا تو وفات پاچکے ہیں یا پھر روزگارکے دوسرے شعبوں سے وابستہ ہوگئے ہیں۔
غرض، حکومت کو چاہیے کہ وہ کمہار صنعت کو فروغ دینے کے لیے اقدامات اٹھائے تاکہ یہ صنعت قائم و دائم رہے اور اس سے وابستہ افراد بھی اپنے اہل وعیال کے لیے رزق کما سکے۔