اجمیر، راجستھان: قوالی کا عالمی مشہور صوفی بزرگ خواجہ معین الدین حسن چشتی کے مزار سے گہرا تعلق ہے۔ خواجہ غریب نواز کو قوالی کا بہت شوق تھا۔ یہی وجہ ہے کہ درگاہ میں شاہی قوال نسل در نسل قوالیاں پیش کرتے رہے ہیں۔ خاص طور پر عرس کے موقع پر دیوان کی موجودگی میں ہونے والی محفل میں روایتی قوالیاں پیش کی جاتی ہیں۔ ساتھ ہی درگاہ میں قوالی کی شکل میں صوفی کلام گائے جاتے ہیں۔ ملک کے ہر قوال کی خواہش ہوتی ہے کہ زندگی میں ایک بار درگاہ خواجہ میں قوالی پیش کرنے کا موقع ملے۔ عرس کے موقع پر بہت سے قوال درگاہ پر آتے ہیں اور قوالیاں پیش کر کے اپنے ایمان کا اظہار کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:
موروثی عملے کی اجمیر شریف درگاہ کمیٹی کو احتجاج کرنے کی دھمکی
خواجہ غریب نواز کا 812واں عرس
خواجہ غریب نواز کا 812واں عرس منایا جا رہا ہے۔ درگاہ پر عقیدت مندوں کا آنا جانا شروع ہو گیا ہے۔ چادریں اور پھول چڑھانے کا سلسلہ دن بھر جاری رہتا ہے لیکن درگاہ کے احاطے کا ماحول ہی الگ ہے۔ یہاں ہر کوئی عبادت میں گم ہے۔ یہ عبادت قوالی کے ذریعہ کی جاتی ہے۔ جی ہاں، یہاں رات کو خواجہ کی شان میں قوالیاں جاری رہتی ہیں۔ خواجہ کی درگاہ میں قوالیوں کا دور نیا نہیں ہے، لیکن قوالیوں کا تعلق صرف خواجہ صاحب سے ہے۔ کہا جاتا ہے کہ قوالیوں کا سلسلہ درگاہ خواجہ معین الدین حسن چشتی سے شروع ہوا۔
مولا کی مدح میں کلام نے قوالی کی شکل اختیار کر لی
تصوف کے مطابق اپنے مولا کی مدح میں پڑھے جانے والے کلام نے رفتہ رفتہ قوالی کی شکل اختیار کر لی۔ وقت کے ساتھ ساتھ ڈھولک، ہارمونیم اور دیگر آلات موسیقی بھی اس میں شامل ہوتے گئے۔ خدام خواجہ حاجی پیر سید فقیر کاظمی بتاتے ہیں کہ جب خواجہ غریب نواز اجمیر تشریف لائے تو راجستھان میں ہر خوشی کے موقع پر گانے، رقص اور موسیقی ہوا کرتی تھی۔ اس وقت مولا کی مدح میں پڑھے جانے والے کلام بھی سازوں کی دھنوں کے ساتھ گائے جانے لگے۔ پھر قوالیوں نے جنم لیا اور قوالیوں کا سلسلہ آگے بڑھتا رہا۔
قوالی کو تین طریقوں سے گایا جاتا ہے
کاظمی کہتے ہیں کہ قوالی تین طریقوں سے گائی جاتی ہے۔ پہلا حمد جس میں خدا کی تعریف کی گئی ہے۔ دوسری نعت جس میں محمد رسول اللہﷺ کی تعریف کی گئی ہے اور تیسری نعت جس میں مولا کائنات کی تعریف کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ قوالی گانے والے اور سننے والے کا براہِ راست ربطِ الٰہی سے تعلق ہے۔ قوالی عبادت کا ایک ذریعہ ہے جو خدا سے جڑتا ہے۔ کاظمی کہتے ہیں کہ صوفی اور قوالی ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ تصوف میں انسان خدا کے راستے پر چل کر اپنی روح کو پاک کرنا شروع کر دیتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ قوالی سناؤ جب کہ لوگ نہیں جانتے کہ انہیں قوالی نہیں بلکہ کلام سنانے کو کہا گیا ہے۔
محفل خانہ میں روایتی قوالیاں پیش کی جاتی ہیں
عام دنوں میں بھی درگاہ میں قوالیاں پیش کی جاتی ہیں، لیکن عرس کے دوران محفل خانہ میں پیش کی جانے والی قوالیاں روایتی ہیں۔ یہ وہ قوالیاں ہیں جو صدیوں سے درگاہ پر جا رہی ہیں۔ اس میں رنگ اور بدوا پڑھے جاتے ہیں۔ قوالی اردو، ہندی اور فارسی میں بھی ہے۔ عام دنوں میں گائی جانے والی قوالیاں یہاں نہیں گائی جاتیں۔ اس سلسلے میں خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ یہاں صرف شاہی قوال ہی قوالی پیش کرتے ہیں۔ درگاہ میں شاہی قوال اختر بتاتے ہیں کہ خواجہ غریب نواز کے زمانے سے ان کے آباؤ اجداد کلام پڑھتے رہے ہیں۔ یہ سلسلہ نسل در نسل جاری ہے۔
شہنشاہ اکبر نے بھی درگاہ میں قوالی گانے کا خطبہ لکھا ہے۔ وہ روایت آج بھی چل رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بعد میں کئی قوال آتے ہیں اور خود کو شاہی قوال کہتے ہیں، یہ غلط ہے۔ یہ اعزاز صرف ہمارے آباؤ اجداد کو ملا ہے اس لیے ہمیں یہ وراثت ملی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ امیر خسرو کے لکھے ہوئے کلام بھی قوالیوں میں گائے جاتے ہیں۔ عرس کے پانچوں دن، درگاہ دیوان کی موجودگی میں، محفل خانہ میں رات 10:30 بجے سے سہ پہر 3 بجے تک محفل منعقد ہوتی ہے، جس میں روایتی قوالیاں پیش کی جاتی ہیں۔ آخری اجتماع چھٹی کے دن ہوتا ہے۔
یہاں عقیدہ کے مطابق قوالی روح کو سکون دیتی ہے
ملک میں کئی مشہور قوال ہیں جو اپنی گائیکی کے لیے جانے جاتے ہیں۔ ایسے تمام قوال بھی درگاہ خواجہ غریب نواز میں قوالی پیش کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ ایسے بھی ایسے قوال ہیں جو درگاہ میں نسل در نسل روزانہ قوالی پیش کر رہے ہیں۔ عرس کے موقع پر یہاں بہت سے قوال اپنی گائیکی کے ذریعے اپنا عقیدہ پیش کرنے آتے ہیں اور ان کے ساتھ ہزاروں زائرین بھی قوالیاں سن کر درگاہ میں روحانی کیفیت میں گم ہو جاتے ہیں۔ تصوف اور قوالی دونوں خدا کے راستے پر چلنے کا ذریعہ ہیں۔ اس راستے پر چلنے سے انسان کو سکون ملتا ہے۔