ETV Bharat / state

Maulana Arshad Madni On Hate Politics نفرت کی سیاست کرنے والے ملک کے وفادار نہیں،مولانا ارشد مدنی

مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ ہمارے بزرگوں نے ایسے ہندوستان کا خواب نہیں دیکھا تھا جس میں نفرت، خوف و دہشت کے سائے میں ملک کے عوام رہتے ہوں۔ انہوں نے کہا کہ حکمرانوں نے ڈر اور خوف کی سیاست کو اپنا شعار بنا لیا ہے، لیکن میں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ حکومت ڈر اور خوف سے نہیں بلکہ عدل و انصاف سے چلا کرتی ہے۔

those-who-do-politics-of-hatred-are-not-loyal-to-the-country-says-maulana-arshad-madani
نفرت کی سیاست کرنے والے ملک کے وفادار نہیں،مولانا ارشد مدنی
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Oct 1, 2023, 6:16 PM IST

نئی دہلی: کشمیر سے منی پور تک خوف و ہراس کے ماحول پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے جمعیۃ علمائے ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی نے کہا کہ ملک اس وقت خوف و دہشت کے ماحول میں جی رہا ہے اور اس ماحول کو ختم نہ کیا گیا تو ملک کے لئے بہت نقصان دہ ثابت ہوگا۔یہ بات انہوں نے جمعیۃ علماء راجستھان کے اجلاس عام میں جاری ایک پیغام میں کہی۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے بزرگوں نے ایسے ہندوستان کا خواب نہیں دیکھا تھا جس میں نفرت، خوف و دہشت کے سائے میں ملک کے عوام رہتے ہوں۔ انہوں نے کہا کہ حکمرانوں نے ڈر اور خوف کی سیاست کو اپنا شعار بنا لیا ہے، لیکن میں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ حکومت ڈر اور خوف سے نہیں بلکہ عدل و انصاف سے چلا کرتی ہے۔
مولانا مدنی نے نفرت مٹانے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ آگ کو آگ سے نہیں بجھایا جاسکتا۔ نفرت کا جواب نفرت نہیں محبت ہے، آج کے ماحول میں محبت ہی ایک ایسا کارگر ہتھیار ہے جس سے ہم نفرت کو شکست دے سکتے ہیں۔ ہم نے ہر ہر موقع پر وطن سے اپنی محبت کا عملی ثبوت دیا ہے، یہ ہمارا ملک ہے، آزادی ہمیں اپنے بزرگوں کی عظیم قربانیوں کے نتیجہ میں حاصل ہوئی ہے، ایسے میں ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم ان مٹھی بھر فرقہ پرست عناصر کے ہاتھوں اپنے بزرگوں کی عظیم قربانیوں کو ضائع نہ ہونے دیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم امن اور محبت کے داعی بن جائیں، اس لیے ہمیں اپنی بیاہ شادیوں اور دیگر تقریبات میں برادرانِ وطن کو بلانا چاہیے، اسی طرح ان کی خوشی اور غم میں اپنا مذہبی فرض سمجھ کر، وہ بلائیں یا نہ بلائیں، شریک ہونا چاہئے۔ آپ کا یہ کردار پرانی تاریخ کو زندہ کرنے میں بڑا قیمتی ثابت ہوگا۔ وہ لوگ ہرگز ملک کے وفادار نہیں ہوسکتے جو نفرت کی آگ سے ملک کے امن وامان اور اتحاد کو تباہ وبرباد کرنے پر تلے ہیں، بلکہ ملک کے سچے وفادار وہ ہیں جو ایسے صبر آزما دور میں بھی امن واتحاد کا پیغام دیکر دلوں کو جوڑنے کی بات کررہے ہیں۔

مولانا ارشد مدنی نے ماضی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ قوموں کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ امتحان کی گھڑیاں آتی رہتی ہیں مگر زندہ قومیں مایوسی کا شکار نہیں ہوتیں بلکہ وہ اس طرح کے ماحول میں بھی اپنے لئے آگے بڑھنے کا راستہ نکال لیتی ہیں۔ ہم ایک زندہ قوم ہیں اس لئے ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہئے، وقت کبھی ایک جیسا نہیں رہتا، ہمیں دور اندیشی اور سوجھ بوجھ سے کام لینے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ الورکا یہ علاقہ میوات سے ملا ہوا ہے، جولائی کے مہینہ میں نوح اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں جو کچھ ہوا اس سے آپ سب کماحقہ واقف ہیں،آج کی ترقی یافتہ دنیا میں اس طرح کے واقعات کی کوئی گنجائش نہیں ہے، لیکن افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں بعض ایسی طاقتیں موجود ہیں جو امن واتحاد کی دشمن ہیں، ورنہ شوبھا یاترا جیسے مذہبی پروگرام میں تلوار اور اسلحہ لیکر چلنے اور اشتعال انگیزی کی کیا ضرورت تھی۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ ان کا مقصدو شوبھا یاترا نکالنا نہیں تھا، بلکہ اس علاقہ کے امن واتحاد کو سبوتاژ کرنا تھا، جبکہ دنیا کا ہر مذہب انسانیت، رواداری، محبت اور یکجہتی کا پیغام دیتا ہے اس لیے جو لوگ مذہب کا استعمال نفرت اور تشدد برپا کرنے کے لئے کرتے ہیں وہ اپنے مذہب کے سچے پیروکار نہیں ہوسکتے ہیں۔ بہرحال دونوں طرف سے جو ہوا اچھا نہیں ہوا، جمعیۃ علماء ہند اپنے قیام کے دن سے ہی امن واتحاد اور فرقہ ورانہ خیرسگالی کی پیامبر رہی ہے، کیونکہ اس کا ماننا ہے کہ امن واتحاد کے بغیر کوئی بھی ملک ترقی نہیں کرسکتا، فرقہ پرستی اور مذہبی شدت پسندی امن واتحاد کی ہی نہیں ترقی کی بھی دشمن ہے۔ فساد بربا کرنے والوں کو یہ خوش فہمی ہوسکتی ہے کہ وہ ایک مخصوص فرقے کو نقصان پہنچا کر نفسیاتی طور پر انہیں کمزور کر رہے ہیں لیکن یہ ان کی خام خیالی ہے، فساد سے کسی فرقہ یا برادری کا نقصان نہیں ہوتا بلکہ ملک کی ترقی اور معیشت کو نقصان پہنچتا ہے۔

مزید پڑھیں: Maulana Arshad Madani in Patna اللہ اور اوم ایک ہے، اس حقیقت کا اعتراف ضروری ہے: مولانا ارشد مدنی

انہوں نے کہا کہ میوات کے علاقے میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب 80 فیصد ہے اور اہم بات یہ ہے کہ فساد کے دوران اکثریت میں ہونے کے باوجود انہوں نے اپنے کسی غیر مسلم پڑوسی کو کسی طرح کا کوئی نقصان نہیں پہنچایا،بلکہ ہمارے پاس تو اطلاعات یہ بھی ہیں کہ بہت سے گاؤں میں مسلمانوں نے مندروں کے اردگرد رات رات بھر پہرا دیا تاکہ کوئی شخص ان مندروں کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکے۔ انتہائی امید افزا بات یہ بھی ہے کہ میوات علاقے کے بہت سے غیر مسلموں نے اخباری نمائندوں اور ٹی وی چینلوں سے گفتگو کرتے ہوئے واضح طور پر یہ کہا کہ اقلیت میں ہونے کے باوجود یہاں انہیں کبھی کسی طرح کا ڈر اور خوف محسوس نہیں ہوا، تمام لوگ یہاں امن و اتحاد اور باہمی میل ملاپ کے ساتھ رہ رہے ہیں، یہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ ملک کی اکثریت اب بھی امن پسند ہے اور فرقہ پرستی کا زہر پھیلا کر تشدد برپا کرنے والے مٹھی بھر لوگ ہیں جو ملک میں جگہ جگہ اپنی شرانگیزیوں اورحرکتوں سے امن وامان کی فضا کو خراب کرتے رہتے ہیں۔
مولانا مدنی نے ہریانہ اور راجستھان کی کھاپ پنچایتوں کی ستائش کرتے ہوئے کہا کہ یقینا یہ بڑی ناانصافی ہوگی اگر ہم اس اہم پروگرام میں ہریانہ و راجستھان کی اُن کھاپ پنچایتوں، سماجی تنظیموں، سکھوں اور دیگر لوگوں کا خیرمقدم نہ کریں، جنہوں نے نوح و اطراف میں ہوئے فساد کے بعد مسلمانوں کے لیے پیدا کردہ بحرانی صورتِ حال میں فرقہ وارانہ خیر سگالی کا مظاہرہ کرتے ہوئے میوات کے مسلمانوں کے ساتھ مکمل یکجہتی اور ہمدردی کا اظہار ہی نہیں کیا بلکہ فرقہ پرست طاقتوں کی سازشوں کو بھی بے نقاب کردیا۔
انہوں نے کہا کہ ہم ان تمام امن پسند لوگوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ اس موقع پر اگر وہ کھل کر مسلمانوں کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ نہ کرتے تو جو ماحول سازی کی جارہی تھی اس کے اثرات دوسری جگہوں پر بھی مرتب ہوسکتے تھے۔ ان کھاپ پنچائیتوں نے پورے ملک کو امن واتحاد کی ایک ایسی راہ دکھائی ہے جس پر آج عمل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بھی ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ ملک کے انصاف پسند حلقوں کی تمام تر کوششوں اور عدلیہ کی جانب سے باربار دی جانے والی ہدایتوں کے باوجود اشتعال انگیزی اور نفرت کو پھیلانے کا مذموم سلسلہ رک نہیں رہا ہے۔اس کی ایک بڑی اور بنیادی وجہ یہ ہے کہ کچھ لوگوں کے نزدیک فرقہ پرستی، اشتعال انگیزی اور نفرت اقتدار کے حصول کا آسان ذریعہ بن گئی ہے۔ یہ ایک خطرناک روش ہے اور اگر اس روش کا خاتمہ نہیں ہوا تو یہ ایک دن ملک کے اتحاد اور سالمیت کے لئے بھی ایک بڑا خطرہ بن سکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: Maulana Arshad Madni یہ تو مسلمانوں کے خلاف نفرت کی انتہا ہے: مولانا ارشد مدنی


واضح رہے کہ جمعیۃ علماء راجستھان کے صوبائی اجلاس مولانا مدنی طبیعت کی خرابی کی وجہ سے شریک نہیں ہوسکے تھے لیکن پیغام کے ذریعہ انہوں نے اپنی حاضری درج کرائی۔ یہ پیغام مولانا راشد نے پڑھا۔
مفتی محمد معصوم ثاقب ناظم عمومی جمعیۃعلماء ہند نے جمعیۃ علماء ہند کی کارکردگی پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ملک کے مسلمانوں پر جب بھی مصیبت آئی یا لائی گئی ہے، جمعیۃ علماء ہند نے آگے بڑھ کر راحت رسانی کے کام کو بلا تفریق و مذہب ملت انجام دیا ہے۔ناظم اصلاح معاشرہ مولانا سید از ہر مدنی نے اصلاح معاشرہ پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اگر مسلمانوں کا معاشرہ صحیح ہو جائے تو مسلمانوں کے 90 فیصد مسائل چٹکیوں میں حل ہوجائیں کیونکہ صحیح معاشرہ کے بغیر اچھے افراد پیدا نہیں کرسکتے۔

جمعیۃ علماء راجستھان کے جنرل سکریٹری مولانا محمد راشد نے تمام مہمانوں کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ یہ اجلاس تاریخی ثابت ہوگا اور یہ اجلاس محض ایک اجلاس نہیں بلکہ لائحہ عمل ہے جس کے سہارے ہم ملک و ملت کی بے لوث خدمت کریں گے اور ان کے مسائل حل کرنے میں پیش پیش رہیں گے۔یہ اجلاس عام مولا نا حسن محمود صدر جمعیۃ علماء راجستھان کی صدارت میں منعقد ہوا۔

(یو این آئی)

نئی دہلی: کشمیر سے منی پور تک خوف و ہراس کے ماحول پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے جمعیۃ علمائے ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی نے کہا کہ ملک اس وقت خوف و دہشت کے ماحول میں جی رہا ہے اور اس ماحول کو ختم نہ کیا گیا تو ملک کے لئے بہت نقصان دہ ثابت ہوگا۔یہ بات انہوں نے جمعیۃ علماء راجستھان کے اجلاس عام میں جاری ایک پیغام میں کہی۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے بزرگوں نے ایسے ہندوستان کا خواب نہیں دیکھا تھا جس میں نفرت، خوف و دہشت کے سائے میں ملک کے عوام رہتے ہوں۔ انہوں نے کہا کہ حکمرانوں نے ڈر اور خوف کی سیاست کو اپنا شعار بنا لیا ہے، لیکن میں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ حکومت ڈر اور خوف سے نہیں بلکہ عدل و انصاف سے چلا کرتی ہے۔
مولانا مدنی نے نفرت مٹانے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ آگ کو آگ سے نہیں بجھایا جاسکتا۔ نفرت کا جواب نفرت نہیں محبت ہے، آج کے ماحول میں محبت ہی ایک ایسا کارگر ہتھیار ہے جس سے ہم نفرت کو شکست دے سکتے ہیں۔ ہم نے ہر ہر موقع پر وطن سے اپنی محبت کا عملی ثبوت دیا ہے، یہ ہمارا ملک ہے، آزادی ہمیں اپنے بزرگوں کی عظیم قربانیوں کے نتیجہ میں حاصل ہوئی ہے، ایسے میں ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم ان مٹھی بھر فرقہ پرست عناصر کے ہاتھوں اپنے بزرگوں کی عظیم قربانیوں کو ضائع نہ ہونے دیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم امن اور محبت کے داعی بن جائیں، اس لیے ہمیں اپنی بیاہ شادیوں اور دیگر تقریبات میں برادرانِ وطن کو بلانا چاہیے، اسی طرح ان کی خوشی اور غم میں اپنا مذہبی فرض سمجھ کر، وہ بلائیں یا نہ بلائیں، شریک ہونا چاہئے۔ آپ کا یہ کردار پرانی تاریخ کو زندہ کرنے میں بڑا قیمتی ثابت ہوگا۔ وہ لوگ ہرگز ملک کے وفادار نہیں ہوسکتے جو نفرت کی آگ سے ملک کے امن وامان اور اتحاد کو تباہ وبرباد کرنے پر تلے ہیں، بلکہ ملک کے سچے وفادار وہ ہیں جو ایسے صبر آزما دور میں بھی امن واتحاد کا پیغام دیکر دلوں کو جوڑنے کی بات کررہے ہیں۔

مولانا ارشد مدنی نے ماضی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ قوموں کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ امتحان کی گھڑیاں آتی رہتی ہیں مگر زندہ قومیں مایوسی کا شکار نہیں ہوتیں بلکہ وہ اس طرح کے ماحول میں بھی اپنے لئے آگے بڑھنے کا راستہ نکال لیتی ہیں۔ ہم ایک زندہ قوم ہیں اس لئے ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہئے، وقت کبھی ایک جیسا نہیں رہتا، ہمیں دور اندیشی اور سوجھ بوجھ سے کام لینے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ الورکا یہ علاقہ میوات سے ملا ہوا ہے، جولائی کے مہینہ میں نوح اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں جو کچھ ہوا اس سے آپ سب کماحقہ واقف ہیں،آج کی ترقی یافتہ دنیا میں اس طرح کے واقعات کی کوئی گنجائش نہیں ہے، لیکن افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں بعض ایسی طاقتیں موجود ہیں جو امن واتحاد کی دشمن ہیں، ورنہ شوبھا یاترا جیسے مذہبی پروگرام میں تلوار اور اسلحہ لیکر چلنے اور اشتعال انگیزی کی کیا ضرورت تھی۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ ان کا مقصدو شوبھا یاترا نکالنا نہیں تھا، بلکہ اس علاقہ کے امن واتحاد کو سبوتاژ کرنا تھا، جبکہ دنیا کا ہر مذہب انسانیت، رواداری، محبت اور یکجہتی کا پیغام دیتا ہے اس لیے جو لوگ مذہب کا استعمال نفرت اور تشدد برپا کرنے کے لئے کرتے ہیں وہ اپنے مذہب کے سچے پیروکار نہیں ہوسکتے ہیں۔ بہرحال دونوں طرف سے جو ہوا اچھا نہیں ہوا، جمعیۃ علماء ہند اپنے قیام کے دن سے ہی امن واتحاد اور فرقہ ورانہ خیرسگالی کی پیامبر رہی ہے، کیونکہ اس کا ماننا ہے کہ امن واتحاد کے بغیر کوئی بھی ملک ترقی نہیں کرسکتا، فرقہ پرستی اور مذہبی شدت پسندی امن واتحاد کی ہی نہیں ترقی کی بھی دشمن ہے۔ فساد بربا کرنے والوں کو یہ خوش فہمی ہوسکتی ہے کہ وہ ایک مخصوص فرقے کو نقصان پہنچا کر نفسیاتی طور پر انہیں کمزور کر رہے ہیں لیکن یہ ان کی خام خیالی ہے، فساد سے کسی فرقہ یا برادری کا نقصان نہیں ہوتا بلکہ ملک کی ترقی اور معیشت کو نقصان پہنچتا ہے۔

مزید پڑھیں: Maulana Arshad Madani in Patna اللہ اور اوم ایک ہے، اس حقیقت کا اعتراف ضروری ہے: مولانا ارشد مدنی

انہوں نے کہا کہ میوات کے علاقے میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب 80 فیصد ہے اور اہم بات یہ ہے کہ فساد کے دوران اکثریت میں ہونے کے باوجود انہوں نے اپنے کسی غیر مسلم پڑوسی کو کسی طرح کا کوئی نقصان نہیں پہنچایا،بلکہ ہمارے پاس تو اطلاعات یہ بھی ہیں کہ بہت سے گاؤں میں مسلمانوں نے مندروں کے اردگرد رات رات بھر پہرا دیا تاکہ کوئی شخص ان مندروں کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکے۔ انتہائی امید افزا بات یہ بھی ہے کہ میوات علاقے کے بہت سے غیر مسلموں نے اخباری نمائندوں اور ٹی وی چینلوں سے گفتگو کرتے ہوئے واضح طور پر یہ کہا کہ اقلیت میں ہونے کے باوجود یہاں انہیں کبھی کسی طرح کا ڈر اور خوف محسوس نہیں ہوا، تمام لوگ یہاں امن و اتحاد اور باہمی میل ملاپ کے ساتھ رہ رہے ہیں، یہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ ملک کی اکثریت اب بھی امن پسند ہے اور فرقہ پرستی کا زہر پھیلا کر تشدد برپا کرنے والے مٹھی بھر لوگ ہیں جو ملک میں جگہ جگہ اپنی شرانگیزیوں اورحرکتوں سے امن وامان کی فضا کو خراب کرتے رہتے ہیں۔
مولانا مدنی نے ہریانہ اور راجستھان کی کھاپ پنچایتوں کی ستائش کرتے ہوئے کہا کہ یقینا یہ بڑی ناانصافی ہوگی اگر ہم اس اہم پروگرام میں ہریانہ و راجستھان کی اُن کھاپ پنچایتوں، سماجی تنظیموں، سکھوں اور دیگر لوگوں کا خیرمقدم نہ کریں، جنہوں نے نوح و اطراف میں ہوئے فساد کے بعد مسلمانوں کے لیے پیدا کردہ بحرانی صورتِ حال میں فرقہ وارانہ خیر سگالی کا مظاہرہ کرتے ہوئے میوات کے مسلمانوں کے ساتھ مکمل یکجہتی اور ہمدردی کا اظہار ہی نہیں کیا بلکہ فرقہ پرست طاقتوں کی سازشوں کو بھی بے نقاب کردیا۔
انہوں نے کہا کہ ہم ان تمام امن پسند لوگوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ اس موقع پر اگر وہ کھل کر مسلمانوں کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ نہ کرتے تو جو ماحول سازی کی جارہی تھی اس کے اثرات دوسری جگہوں پر بھی مرتب ہوسکتے تھے۔ ان کھاپ پنچائیتوں نے پورے ملک کو امن واتحاد کی ایک ایسی راہ دکھائی ہے جس پر آج عمل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بھی ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ ملک کے انصاف پسند حلقوں کی تمام تر کوششوں اور عدلیہ کی جانب سے باربار دی جانے والی ہدایتوں کے باوجود اشتعال انگیزی اور نفرت کو پھیلانے کا مذموم سلسلہ رک نہیں رہا ہے۔اس کی ایک بڑی اور بنیادی وجہ یہ ہے کہ کچھ لوگوں کے نزدیک فرقہ پرستی، اشتعال انگیزی اور نفرت اقتدار کے حصول کا آسان ذریعہ بن گئی ہے۔ یہ ایک خطرناک روش ہے اور اگر اس روش کا خاتمہ نہیں ہوا تو یہ ایک دن ملک کے اتحاد اور سالمیت کے لئے بھی ایک بڑا خطرہ بن سکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: Maulana Arshad Madni یہ تو مسلمانوں کے خلاف نفرت کی انتہا ہے: مولانا ارشد مدنی


واضح رہے کہ جمعیۃ علماء راجستھان کے صوبائی اجلاس مولانا مدنی طبیعت کی خرابی کی وجہ سے شریک نہیں ہوسکے تھے لیکن پیغام کے ذریعہ انہوں نے اپنی حاضری درج کرائی۔ یہ پیغام مولانا راشد نے پڑھا۔
مفتی محمد معصوم ثاقب ناظم عمومی جمعیۃعلماء ہند نے جمعیۃ علماء ہند کی کارکردگی پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ملک کے مسلمانوں پر جب بھی مصیبت آئی یا لائی گئی ہے، جمعیۃ علماء ہند نے آگے بڑھ کر راحت رسانی کے کام کو بلا تفریق و مذہب ملت انجام دیا ہے۔ناظم اصلاح معاشرہ مولانا سید از ہر مدنی نے اصلاح معاشرہ پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اگر مسلمانوں کا معاشرہ صحیح ہو جائے تو مسلمانوں کے 90 فیصد مسائل چٹکیوں میں حل ہوجائیں کیونکہ صحیح معاشرہ کے بغیر اچھے افراد پیدا نہیں کرسکتے۔

جمعیۃ علماء راجستھان کے جنرل سکریٹری مولانا محمد راشد نے تمام مہمانوں کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ یہ اجلاس تاریخی ثابت ہوگا اور یہ اجلاس محض ایک اجلاس نہیں بلکہ لائحہ عمل ہے جس کے سہارے ہم ملک و ملت کی بے لوث خدمت کریں گے اور ان کے مسائل حل کرنے میں پیش پیش رہیں گے۔یہ اجلاس عام مولا نا حسن محمود صدر جمعیۃ علماء راجستھان کی صدارت میں منعقد ہوا۔

(یو این آئی)

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.