سنہ 2010سے مشتعل جھڑپوں کو قابو کرنے کے لیے پیلٹ کا استعمال کیا گیا اور 2016میں حزب کمانڈر برہان وانی کی ہلاکت کے بعد وادی میں حالات بے حد کشیدہ ہو گئے تھے اور تقریباً ہر روز نوجوانوں اور حفاظتی اہلکاروں کے مابین جھڑپوں میں پیلٹ گن کا استعمال کیا گیا، جس سے سینکڑوں افراد جزوی یا مکمل طور نابینا ہو گئے۔
پیلٹ نے جہاں وادی کے نوجوانوں کو اپنی لپیٹ میں لیکر متعدد افراد کو عمر بھر کے لئے نابینا کر دیا ہے وہیں اس کے قہر سے غیر ریاستی باشندے بھی محفوظ نہیں۔
گزشتہ کئی مہینوں سے جنوبی کشمیر کے پلوامہ ضلع میں مزدوری کر رہے محمد شاہنواز کی آنکھوں میں پیلٹ لگنے سے وہ دوسروں کے سہارے کے محتاج ہو گئے ہیں۔
ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے شاہنواز کا کہنا ہے کہ وہ راشن کے لئے بازار گئے تھے کہ اچانک حالات کشیدہ ہو گئے، فورسز اہلکاروں اور نوجوانوں کے مابین جھڑپیں شروع ہو گئیں۔
شاہنواز کے مطابق وہ بھی اپنے بچاؤ کے لئے بھاگا، ’’تھوڑی شانتی (امن) کے بعد میں دکاندار کی طرف واپس جا رہا تھا کہ مجھے پیلٹ لگ گیا۔‘‘
مقامی باشندوں نے شاہنواز کو اسپتال پہنچایا جہاں سے اسے سرینگر منتقل کر دیا۔
ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات کرتے ہوئے شاہنواز کے بھائی کا کہنا ہے کہ شاہنواز کی ایک آنکھ کی روشنی مکمل طور پر چلی گئی ہے جبکہ دوسری آنکھ کی بینائی بھی متاثر ہے۔
انکا کہنا تھا کہ ڈاکٹروں نے آپریشن کا مشورہ دیا ہے جس کے بعد شاہنواز کی بینائی جزوی طورپر لوٹ سکتی ہے۔
شاہنواز اور انکے بھائی کا کہنا ہے کہ وہ بہت غریب ہیں اور وہ کشمیر مزدوری کرنے آئے تھے، اس لئے انہوں نے سرکار اور عوام سے مالی معاونت کی اپیل کی ہے۔