جنوبی کشمیر کے ضلع پلوامہ کے سزن چکورہ گاؤں کے رہنے والے محمد اشرف میر ایسے ہی نوجوان ہے، جو کبھی دوسروں کا سہارا تھے، اب خود دوسروں کے سہارے پر منحصرہے۔
14 مئی 2017 کو پلوامہ کے لیتر گاؤں میں عسکریت پسندوں اور فورسز کے مابین تصادم میں دو عسکریت پسند ہلاک ہوئے، اس دوران محمد اشرف میر کے سینے پر گولی لگی جو اس کے جسم کو چیرتی ہوئی نکل گئی۔
میر کو فوری طور پر سری نگر لےجایا گیا جہاں اس کی جان بچ تو گئی لیکن وہ زندگی بھر کے لیے معذور ہو گئے ۔
اشرف کے جسم کے نیچے والے اعضاء معذور ہوگئے ہیں۔
انہیں اب کروٹ بدلنے کے لیے بھی گھر والوں کی مدد کی ضرورت پڑتی ہے۔
اشرف حادثہ سے قبل میکینک کا کام کرتے تھے، لیکن گولی لگنے کے بعد سے ان کی ساری دنیا ختم ہو گئی اور اب وہ ماضی کو یاد کرتے ہی شب و روز گزارتے ہیں۔
اشرف نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'اس حادثے کے بعد سے چند صحافیوں کے سوا کوئی بھی تنظیم یامحکمہ سے وابستہ لوگ انہیں دیکھنے نہیں آیا'۔
انہوں نے مزید کہا کہ 'جب درد کی شدت بڑھ جاتی ہے تو وہ اللہ سے موت ہی ما نگتے ہیں'۔
محمد اشرف کے اہل خانہ اس کا خوب مدد کرتے ہیں اور اسے کوئی کمی محسوس نہیں ہونے دیتے لیکن اشرف ہر کسی سے یہی التجا کرتے ہیں کہ ان کی صحت یابی اور تندرستی کے لیے دعا کریں تاکہ وہ بھی دوسروں کی طرح چل پھر سکیں۔