ETV Bharat / state

مہاراشٹر میں بین المذاہب جوڑوں کو ریاستی حکومت تحفظ فراہم کرے گی

Protection for Inter Cast Couples: مہاراشٹر حکومت نے اہم فیصلہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ بین المذاہب شادیوں کرنے والے جوڑوں کو تحفظ فراہم کرے گی۔ حکومت مہاراشٹر نے اپنی سطح پر یہ فیصلہ نہیں کیا بلکہ سپریم کورٹ کی ہدایت کے بعد یہ فیصلہ کیا ہے۔

author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Dec 29, 2023, 2:30 PM IST

Married couples in Maharashtra will be provided protection by the state government۔
Married couples in Maharashtra will be provided protection by the state government

ممبئی: بین المذاہب شادیوں کو لیکر مہاراشٹر حکومت اہم فیصلہ لیتے ہوئے ہر ضلع کے ایس پی کے زیر نگرانی میں ایک ٹیم تشکیل کرے گی جس کا مقصد ہوگا کہ ایسے رشتے میں بندھنے والے لوگوں کو تحفظ فراہم کرے۔ کیوں کہ اکثر ایسے رشتوں کی وجہ سے خون خرابہ ہوتا ہے اور ازدواجی زندگی سے جڑنے والے رشتوں کا انجام بہت ہی خطرناک ہوتا ہے۔ محکمہ داخلہ کی جانب سے اس فیصلہ کے بعد نہ صرف ایسے رشتوں کو تحفظ فراہم کیا جائے گا بلکہ انہیں پولیس کی جانب سے ایسا گھر فراہم کیا جائے گا جس میں انہیں کسی بھی طرح سے کوئی نقصان نہ پہنچایا جا سکے۔ اس پر بھی خاص غور کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ یہ فیصلہ محکمہ داخلہ نے اپنی سطح پر نہیں بلکہ سپریم کورٹ کے ایک فیصلہ کے بعد کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

مہاراشٹر کے وزیر بچو کڈو بین المذاہب شادی کے حمایت میں


سن 2009 میں ہریانہ اور اُتر پردیش سمیت دوسری کئی ریاستوں میں ہانر کلنگ کی وارداتیں پیش آئی ہیں۔ جس کی وجہ سے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں خوف میں مبتلا ہیں۔ ایسے کئی معاملات دیکھیے گئے جو اس خوف کی وجہ سے ازدواجی زندگی سے محروم ہوگئے۔ اور اس وجہ سے بھارتی آئین کی سیدھے سیدھے خلاف ورزی کی جاتی ہے۔ کیونکہ ملک میں آزادی اور برابری کے بنیادی حقوق پر سیدھے حملہ ہوتا ہے۔ سپریم کورٹ میں ایک غیر سرکاری تنظیم شکتی واہنی کے ذریعہ سن 2010 میں ایک عرضی داخل کی گئی تھی، جس میں یہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ ریاستی حکومتیں جرائم کو روکنے کے لیے ریاستی سطح پر ایکشن پلان بنائے اور اس کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دے جس کی ذمہ داری سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کو سونپی جائے اور اس کمیٹی میں کئی سرکاری محکموں کے افسران شامل ہوں۔ تاکہ کمیٹی پوری ایمانداری سے ان معاملوں کی جانچ کرے بلکہ ایسے رشتوں کو تحفظ بھی فراہم کرے۔

محکمۂ داخلہ کے اس فرمان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایسے رشتوں جو بین المذاہب شادیوں کے رشتے میں بندھے ہوں ان کو لیکر ہونے والی شکایتوں پر وہ کارروائیوں کا دائرہ سخت کریں گے تاکہ انہیں کسی طرح کی دقتیں نہ پیش آئیں۔ اس کے لیے ہر ضلع کے کلکٹر کی صدارت میں کمیٹی کو تشکیل دی جائے گی جو ہر چھ مہینے اور ایک برس میں اس کی کارروائیوں کا جائزہ لے گی۔ چونکہ سپریم کورٹ نے اپنے فرمان میں بہت ہی سخت الفاظ میں نہ صرف ہدایت دی ہے بلکہ بین المذاہب میں شادی کرنے والے جوڑوں کو لے کر کہا ہے کہ انہیں خوف کی وجہ سے اپنے گھر سے دور رہنا پڑتا ہے، اس لیے ان کے لیے ایسے گھر کا انتظام خود پولیس کرے جس میں مکمل تحفظ فراہم ہو۔

بین المذاہب میں شادی کرنے والوں کو پولیس خود ان کے مذہب کی بنیاد پر مذہبی طریقہ پر عمل کرتے ہوئے ان کی رجسٹریشن میں بھی مدد کرے۔ یہی نہیں، انہوں نے کہا ہے کہ اگر اس طرح کے معاملات سامنے آتے ہیں تو ایس پی رینک کے افسر اس معاملہ کو خود دیکھیں اور اس پر ایف آئی آر بھی درج کریں اور ساتھ میں ایسے افسران کے خلاف بھی قانونی کارروائی کریں جو اس طرح کے معاملات میں لاپرواہی برتتے ہیں اور ایسے جوڑوں کو ان کی وجہ سے تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ممبئی: بین المذاہب شادیوں کو لیکر مہاراشٹر حکومت اہم فیصلہ لیتے ہوئے ہر ضلع کے ایس پی کے زیر نگرانی میں ایک ٹیم تشکیل کرے گی جس کا مقصد ہوگا کہ ایسے رشتے میں بندھنے والے لوگوں کو تحفظ فراہم کرے۔ کیوں کہ اکثر ایسے رشتوں کی وجہ سے خون خرابہ ہوتا ہے اور ازدواجی زندگی سے جڑنے والے رشتوں کا انجام بہت ہی خطرناک ہوتا ہے۔ محکمہ داخلہ کی جانب سے اس فیصلہ کے بعد نہ صرف ایسے رشتوں کو تحفظ فراہم کیا جائے گا بلکہ انہیں پولیس کی جانب سے ایسا گھر فراہم کیا جائے گا جس میں انہیں کسی بھی طرح سے کوئی نقصان نہ پہنچایا جا سکے۔ اس پر بھی خاص غور کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ یہ فیصلہ محکمہ داخلہ نے اپنی سطح پر نہیں بلکہ سپریم کورٹ کے ایک فیصلہ کے بعد کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

مہاراشٹر کے وزیر بچو کڈو بین المذاہب شادی کے حمایت میں


سن 2009 میں ہریانہ اور اُتر پردیش سمیت دوسری کئی ریاستوں میں ہانر کلنگ کی وارداتیں پیش آئی ہیں۔ جس کی وجہ سے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں خوف میں مبتلا ہیں۔ ایسے کئی معاملات دیکھیے گئے جو اس خوف کی وجہ سے ازدواجی زندگی سے محروم ہوگئے۔ اور اس وجہ سے بھارتی آئین کی سیدھے سیدھے خلاف ورزی کی جاتی ہے۔ کیونکہ ملک میں آزادی اور برابری کے بنیادی حقوق پر سیدھے حملہ ہوتا ہے۔ سپریم کورٹ میں ایک غیر سرکاری تنظیم شکتی واہنی کے ذریعہ سن 2010 میں ایک عرضی داخل کی گئی تھی، جس میں یہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ ریاستی حکومتیں جرائم کو روکنے کے لیے ریاستی سطح پر ایکشن پلان بنائے اور اس کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دے جس کی ذمہ داری سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کو سونپی جائے اور اس کمیٹی میں کئی سرکاری محکموں کے افسران شامل ہوں۔ تاکہ کمیٹی پوری ایمانداری سے ان معاملوں کی جانچ کرے بلکہ ایسے رشتوں کو تحفظ بھی فراہم کرے۔

محکمۂ داخلہ کے اس فرمان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایسے رشتوں جو بین المذاہب شادیوں کے رشتے میں بندھے ہوں ان کو لیکر ہونے والی شکایتوں پر وہ کارروائیوں کا دائرہ سخت کریں گے تاکہ انہیں کسی طرح کی دقتیں نہ پیش آئیں۔ اس کے لیے ہر ضلع کے کلکٹر کی صدارت میں کمیٹی کو تشکیل دی جائے گی جو ہر چھ مہینے اور ایک برس میں اس کی کارروائیوں کا جائزہ لے گی۔ چونکہ سپریم کورٹ نے اپنے فرمان میں بہت ہی سخت الفاظ میں نہ صرف ہدایت دی ہے بلکہ بین المذاہب میں شادی کرنے والے جوڑوں کو لے کر کہا ہے کہ انہیں خوف کی وجہ سے اپنے گھر سے دور رہنا پڑتا ہے، اس لیے ان کے لیے ایسے گھر کا انتظام خود پولیس کرے جس میں مکمل تحفظ فراہم ہو۔

بین المذاہب میں شادی کرنے والوں کو پولیس خود ان کے مذہب کی بنیاد پر مذہبی طریقہ پر عمل کرتے ہوئے ان کی رجسٹریشن میں بھی مدد کرے۔ یہی نہیں، انہوں نے کہا ہے کہ اگر اس طرح کے معاملات سامنے آتے ہیں تو ایس پی رینک کے افسر اس معاملہ کو خود دیکھیں اور اس پر ایف آئی آر بھی درج کریں اور ساتھ میں ایسے افسران کے خلاف بھی قانونی کارروائی کریں جو اس طرح کے معاملات میں لاپرواہی برتتے ہیں اور ایسے جوڑوں کو ان کی وجہ سے تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.