این آئی اے کے خصوصی جج نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے وکیل استغاثہ اور این آئی اے کے افسران کو حکم دیا کہ کالینہ لیباریٹری سے جانچ کے لیے بھیجی گئی اشیاء کو عدالت میں پیش کیا جائے تاکہ اس سے منسلک گواہوں کو عدالت میں گواہی کے لئے طلب کیا جاسکے۔
گذشتہ کل عدالت میں گواہی کے لئے استغاثہ نے ایک گواہ کو پیش کیا تھا لیکن اس کی گواہی سے قبل ہی اس بات کا انکشاف ہوا کہ ملزم سدھاکر اوم پرکاش چترویدی کی گرفتاری کے وقت گواہ بطور پنچ موجود تھا نیز ملزم کے قبضہ سے اے ٹی ایس نے کچھ چیزیں ضبط کی تھیں جسے سنہ 2016 میں ممبئی کے کالینہ علاقے میں واقع فارنسک سائنس لیباریٹری میں جانچ کے لئے بھیجا گیا تھا، جو ابھی تک واپس نہیں آیا ہے لہذا گواہ کی گواہی عدالت میں شروع نہیں کی جاسکتی ہے۔
وکیل استغاثہ کی جانب سے متذکرہ عذر پیش کرنے پر خصوصی این آئی اے جج پی آر سٹرے نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ چار سال کا عرصہ گزر جانے کے باجود کالینہ فارینسک سائنس لیباریٹری سے آرٹیکل واپس نہ آنا مضحکہ خیز بات ہے، کیونکہ اس طرح کے حساس معاملات میں آرٹیکل کو جلداز جلد جانچ کے بعد واپس بھیجنے کا حکم ہائی کورٹ نے دیا ہے.
خصوصی جج نے وکیل استغاثہ اویناس رسال اور این آئی اے افسران کو حکم دیا کہ وہ کالینہ فارینسک سائنس لیباریٹری سے رجوع ہوکر آرٹیکل کو واپس طلب کریں۔عدالت نے استغاثہ کو حکم دیا کہ وہ 9 دسمبر کو عدالت میں کسی دوسرے سرکاری گواہ کو پیش کرے۔آج عدالت میں سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر کی غیر موجودگی میں اس کے وکلاء جے پی مشراء اورپرشانت مگو موجود تھے.جبکہ ملزمین کرنل پروہت، سمیر کلکرنی بھی موجود تھے اور بم دھماکہ متاثرین کی جانب سے ایڈوکیٹ شاہد ندیم(جمعیۃ علماء مہاراشٹر ارشد مدنی) موجود تھے.
ممبئی کی خصوصی این آئی اے عدالت ملزمین پرگیہ سنگھ ٹھاکر، رمیش اپادھیائے، سمیر کلکرنی، اجئے راہیکر، کرنل پرساد پروہت، سدھاکر دھر دویدی اور سدھاکر چترویدی کے خلاف قائم مقدمہ میں گواہوں کے بیانات کا اندراج کررہی ہے، ابتک 140 گواہوں کی گواہی عمل میں آچکی ہے اور عدالتی کاروائی روز بہ روز کی بنیاد پر جاری ہے۔