ممبئی: آئی پی ایس اور سابق اسپیشل آئی جی عبد الرحمٰن نے کہا ہے کہ سیاسی طاقت کا فقدان مسلمانوں کی پسماندگی کا نتیجہ ہے، الیکشن کمیشن سے لیکر سیاسی پارٹیوں نے مسلمانوں کا خوب استحصال کیا ہے۔ سابق اسپیشل آئی جی اور آئی پی ایس عبد الرحمٰن نے اپنی کتاب ایبسینت اِن پالیٹکس اینڈ پاور، پالیٹیکل ایکسولیشن آف انڈین مسلمس ( سیاست اور اقتدار سے مسلمانوں کی غیر حاضری اور سیاست سے باہر ہونا) کے اجراء کے موقع پر اظہار خیال کیا۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کے ساتھ ایک سازش کے تحت انہیں اقتدار اور سیاست سے دور رکھنے کی کوشش کی گئی۔ اس کے لیے نہ صرف سیاسی پارٹیاں بلکہ انتظامیہ اور الیکشن کمیشن آف انڈیا بھی ذمہ دار ہے۔ آئی پی ایس عبد الرحمٰن نے مشہور دانشور جاوید عالم کے خیالات سے اتفاق کیا کہ مسلمانوں نے ملک کی جمہوریت کو بچایا ہے۔ مسلمان اور پسماندہ افراد نے اس طرف توجہ دی۔
یہ بھی پڑھیں:
War of Word Between Congress And AIMIM کانگریس اور مجلس کے لیڈران میں تکرار
اقلیت کو سیاست میں حصہ داری ملنا ضروری
اس لیے چاہیے کہ اس کے برعکس امیر نے بھی جمہوریت کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کیا ہے۔ تاکہ اسے ترقی ملے۔ انہوں نے اقوام متحدہ کے حوالے سے کہا کہ ہر ایک ملک میں اقلیت کو سیاست میں حصہ داری ملنی چاہیے۔ آئی پی ایس عبد الرحمٰن نے مزید کہا کہ جغرافیائی پروویزن بھی بہت اچھا نہیں ہے اور اعداد وشمار تو بہت خراب ہیں، یہی حال پسماندہ طبقات کا بھی ہے۔ملک ہی نہیں بلکہ مختلف ریاستوں میں انہیں نمائندگی نہیں دی گئی۔ مسلمانوں کو نہ نمائندگی ملی اور نہ ہی وزارت دی گئی ہے۔ انہوں نے مہاراشٹر کے اعداد وشمار پیش کیے اور کہا کہ 1952 سے یہی سلسلہ جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتوں نے حق ادا نہیں کیا ہے اور اس کے لیے کانگریس اور این سی پی سب سے زیادہ قصوروار ہیں۔ جب کہ رہی سہی کسر الیکشن کمیشن نے پوری کردی ہے۔ مسلمان اکثریتی حلقوں کو مخصوص کردیا جاتا ہے۔ جب کہ ملک کی انٹلی جنس ایجنسی اور ادارے بھی ان کے خلاف سرگرم رہے ہیں۔
مسلمانوں کو مستقبل کا لائحہ عمل تیار کرنا اہمیت کا حامل
انہوں نے مشورہ دیا کہ وقت آگیا ہے کہ ہمیں مستقبل کا لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا، کیونکہ 76 سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔اس لیے سر جوڑ کر بیٹھنے کے لیے ہمیں آگے آنا ہے ورنہ مزید دیر ہو جائے گی۔ نیشنل کانفرنس فار مائناریٹز نے کہا کہ مسلمانوں کے بارے میں سوچنے کا طریقہ بدل چکا ہے۔ کیونکہ بی جے پی اور اس کے ہمنوا عناصر اس کے لیے سرگرم ہیں۔مسلمانوں کی نمائندگی بڑھانے کے لیے سرگرم ہونا چاہیے۔ آئی پی ایس عبد الرحمٰن کی کتاب ایک زبردست دستاویز ہے جو آنکھ کھولنے کے لیے کافی ہے۔ بھیونڈی کے ایم ایل اے رئیس شیخ نے کہا کہ مسلمانوں کے خلاف یہ ذہنیت آج کل کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ نصف صدی سے یہ کوشش جاری رہی اور گزشتہ دس سال سے اس میں اضافہ ہوا ہے۔ بھیونڈی کا حوالہ دیا کہ انتہائی پسماندہ ہے اور ترقی کی جانب کسی نے توجہ نہیں دی۔ ایک ایک قدم پر مسائل کا سامنا ہے اور کوئی پرسانِ حال نہیں ہے۔ سبھی کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسمبلی کے ایوان میں انہیں فرقہ وارانہ عناصر کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سابق ایم ایل اے ایڈووکیٹ وارث پٹھان نے کہا کہ سیاست میں ہر کسی کو آگے آنا چاہیے اور یہی وقت کا تقاضہ ہے۔
کیا ملک کے سیکولرازم کو بچانا صرف مسلمانوں کی ذمہ داری ہے
اورنگ آباد سے مجلس اتحاد المسلمین کے ایم پی امتیاز جلیل نے کہا کہ کتاب کا ایک ایک صفحہ چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ 75 سال میں کس طرح مسلمانوں کے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے۔ انہوں نے واضح طور پر کہا کہ مسلمانوں کو غلط فہمی ہوگئی کہ ملک کے سیکولرازم کو بچانا ان کی ذمہ داری ہے۔ اس عرصہ میں ایک منصوبہ کے تحت مسلمانوں کے سیاسی وجود کو ختم کیا گیا اور آج سرعام یہ سب کچھ ہورہا ہے۔ امتیاز جلیل نے اورنگ آباد سے اپنی جیت کے بارے میں کہا کہ حلقہ کے ہزاروں مسلمانوں کو متحد کیا۔ مہاراشٹر میں دھولیہ، بیڑ، اورنگ آباد جیسے علاقوں سے مسلمان کامیاب ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے اعداد وشمار کے حوالے سے کہا کہ متعدد ریاستوں سے مسلمانوں کی نمائندگی صفر ہے۔ آئی پی ایس عبد الرحمٰن نے کہا کہ ہم نے سیکولرازم کا بوجھ اٹھالیا ہے۔ امتیاز جلیل نے سیکولر پارٹیوں کو نشانہ بنایا اور کہا کہ انہیں پارٹیوں کو ٹکٹ دینا ہے۔