اورنگ آباد: 800 سال پہلے تغلق سلطنت جب دہلی سے دولت آباد آئے تھے، اُس وقت دولت آباد کو ملک کی دارالحکومت بنایا گیا تھا، اس وقت کئی سارے لوگ تغلق کے ساتھ دولت آباد آئے تھے، لیکن کچھ وقفے کے بعد تغلق واپس دہلی چلے گئے تھے، لیکن ان کے ساتھ آئے کاراگیر یہاں پر ہی رہ گئے تھے۔ اور ان لوگوں نے یہاں پر ہی کاروبار کرنا شروع کر دیا تھا۔ عمران قریشی کہتے ہیں کہ ان کے دادا کے دادا نے کمخاب کپڑا بنانے کے فن کو متعارف کروایا تھا، اور جب سے لے کر اب تک کپڑے بنانے کا کام یہ لوگ کر رہے ہیں۔لیکن وقت کے ساتھ ہمرو کا کاروبار بھی اوپر نیچے ہوتا ہے۔
ایک وقت ایسا آیا کہ انہوں نے یہ سارا کام بند کرنے کا فیصلہ کر لیا، لیکن کچھ تنظیموں (این جی اوز) اور حکومت کی تھوڑی بہت مدد کی وجہ سے ہمرو کا فن آج بھی زندہ ہے، اور کئی سارے خواتین کو اب ہمرو کی وجہ سے روزگار مل رہا ہے، اور یہ خواتین خود ہمرو کپڑے سے شال،کپڑا، ساڑھی بنانا سیکھ رہی ہے۔عمران قریشی کا کہنا ہے کہ پہلے زمانے میں ہمرو کو ہاتھ کی مشینوں سے بنایا جاتا تھا، لیکن اب جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے ایک آدمی 10 مشینوں کو چلا سکتا ہے۔ جس کی وجہ سے روزگار ختم ہو رہا ہے، لیکن ہمرو جو لکڑی کی روایتی مشین کی مدد سے کام ہوتا تھا اُس میں دو لوگ لگتے تھے۔ لیکن اب جدید ٹیکنالوجی اور ہینڈلوم کی وجہ سے لوگوں کا روزگار چھوٹ رہا ہے اور روایتی انداز میں ہونے والا کام بھی ختم ہو رہا ہے۔
عمران قریشی کا کہنا ہے کہ 700 ۔ 800 سال پہلے جس طرح سے کپڑا بنایا جاتا تھا، اسی ٹیکنیک کا استعمال کرتے ہوئے آج بھی یہ اسی طرح کا کپڑا بنا رہے ہیں۔ لیکن فرق اتنا ہوا ہے کہ پہلے کپڑا پورا خالص سلک، سونے، چاندی کی زری کے تار، مخمل، میں کپڑا بنایا جاتا تھا، لیکن آج کاٹن اور سلک میں بنایا جا رہا ہے۔ عمران قریشی کا کہنا ہے کہ روایتی انداز میں دھڑ سے دو میٹر کی شال بنانے کے لیے آٹھ سے دس دن لگ جاتے ہیں۔ اور اگر کسی کو ڈریس کا کپڑا بنانا ہوتا ہے تو وہ بارہ سے پندرہ دن لگتے ہیں۔ عمران قریشی کا کہنا ہے کہ ان کے پاس روایتی انداز کے 1200 سے 1500 ڈیزائن موجود ہے جو ان کے دادا پر دادا نے بنائے تھے۔
عمران قریشی کا کہنا ہے کہ ہمرو کا کام کرتے ہوئے کئی برس گزر گئے ہیں اس دوران کئی سارے ایوارڈ بھی مل چکے ہیں کچھ ایوارڈ اس میں نظام دور حکومت کے بھی موجود ہے اور کئی سارے تمغے بھی انڈین حکومت کی جانب سے دیے گئے ہیں۔ 1971 میں منسٹری آف ٹیکسٹائل اور گورنمنٹ آف انڈیا کی جانب سے انکے دادا کو ایوارڈ دیا گیا تھا۔ اورنگ آباد میں واقع اس کارخانے میں ملک ہی نہیں بلکہ کئی سارے غیر ملکی لوگ بھی آچکے ہیں۔ عمران قریشی کا کہنا ہے کہ مغل اعظم فلم میں بھی ان کے پاس سے بنے کپڑے کی شیروانی دلیپ کمار نے پہنی تھی اور خود دلیپ کمار اورنگ آباد میں ان کے کارخانے پر آئے تھے اور باریکی سے انہوں نے ہمرو ورک کا کام دیکھا تھا۔
مزید پڑھیں: گرمی میں بارش کی وجہ سے کولر کا کاروبار متاثر
ہمرو فن کو زندہ رکھنے کے لیے اب نئی نسل کو ٹریننگ دے رہے ہیں ٹریننگ مکمل ہونے کے بعد سیکھنے والوں کو حکومت کی جانب سے سرٹیفیکیٹ دیے جاتے ہیں اور یہ لوگ کسی بھی ٹیکسٹائل انڈسٹری میں کام کر سکتے ہیں۔ عمران قریشی نے کہا کہ این جی او انٹیک آرگنائزیشن کے ساتھ مل کر تاریخ فن ہمرو کے کام کو آگے بڑھا رہے ہیں اور ہم لوگ دوسروں کو ہمرو کپڑے بنانے کی ٹریننگ دے رہے ہیں۔ جس سے لوگوں کو روزگار بھی مل رہا ہے اور انہیں ہمرو کا کام سیکھنے کا موقع بھی دیا جا رہا ہے۔
عمران قریشی کے کارخانے پر کئی سارے لوگوں کو مفت میں ہمرو سکھایا جا رہا ہے ساتھ ہی ان کا کہنا ہے کہ پچھلے دو مہینوں سے یہ لوگ ہمرو کپڑا بنانے کا کام سیکھ رہے ہیں۔ ایک مشین پر دو لوگ بیٹھ کر ہمرو کا کپڑا بناتے ہیں۔ سیکھنے آئے خواتین کا کہنا ہے کہ ہم لوگ جو ہمرو کا کام کر رہے ہیں وہ کاٹن کے کپڑے پر ڈیزائن بنتا ہے اسے سلک میں بنایا جاتا ہے۔کام سیکھنے والے دیپک کا کہنا ہے کہ ہمرو شال کی خاصیت یہ ہے کہ یہ گرمی کے دنوں میں ٹھنڈی اور ٹھنڈی کے دنوں میں گرم رہتی ہے۔ اور روایتی فن کو سیکھنے کے لیے نئی نسل کو آگے بڑھنا ہوگا۔