ETV Bharat / state

جسم فروشی کوئی جرم نہیں: بامبے ہائی کورٹ

author img

By

Published : Sep 26, 2020, 6:04 PM IST

'جسم فروشی کے کاروبار میں ملوث خواتین کو ان کی خواہش کے برخلاف غیر ضروری نظربندی کا نشانہ نہیں بنایا جاسکتا اور نہ ہی انہیں اصلاحی ادارے میں ہی رہنے کے لیے کہا جاسکتا ہے'۔

IMAGE
IMAGE

بامبے ہائی کورٹ نے اپنے ایک حالیہ فیصلے میں تین جسم فروش خواتین کو ایک اصلاحی ادارے سے فوری طور پر رہائی کا حکم دیتے ہوئے مشاہدہ کیا ہے کہ غیر اخلاقی ٹریفک (روک تھام) ایکٹ 1956 کے تحت جسم فروشی کوئی جرم نہیں ہے اور یہ کہ ایک بالغ عورت کو اپنی پسند کا پیشہ منتخب کرنے کا حق حاصل ہے اور اس کی رضامندی کے بغیر اسے حراست میں نہیں لیا جاسکتا۔

میٹروپولیٹن مجسٹریٹ، مجگاوں کے ذریعہ مذکورہ ایکٹ کی دفعہ 17 (2) کے تحت 19 اکتوبر 2019 کو دیے گئے ایک حکم کو چیلنج کرنے والی تین جسم فروش خواتین کی درخواست کے ساتھ ساتھ، ایڈیشنل سیشن جج ڈنڈوشی کی جانب سے 22 اکتوبر 2019 کے ایک حکم، جس میں انھوں نے 19 اکتوبر 2019 کے مذکورہ حکم کو برقرار رکھا تھا، کی سماعت جسٹس پرتھوی راج کے چوہان کی سنگل بنچ کر رہی تھی۔

تفصیلات اور مقدمہ کے پس منظر کے مطابق، پولیس کانسٹیبل روپیش رامچندر مور کو ایک خفیہ اطلاع ملی تھی کہ ملاڈ علاقے میں واقع ایک گیسٹ ہاؤس میں نظام الدین خان نامی ایک دلال خواتین کو جسم فروشی کے لیے فراہم کرتا ہے۔

اس کے بعد پولیس کارروائی میں اس پیشے میں ملوث ایک خاتون کو "ایک یاتری گیسٹ ہاؤس" کے کمرے نمبر 7 سے تحویل میں لیا گیا تھا۔ ملزم کے ساتھ ساتھ دیگر دو متاثرہ خواتین کو بھی گرفتار کرکے تحویل میں لیا گیا تھا۔ تینوں خواتین کو 13 ستمبر 2019 کو میٹرو پولیٹن مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا۔

جہاں مجسٹریٹ نے تینوں متاثرین کے سابقہ کردار اور ان کے اہلخانہ کے سلسلے میں پروبیشن آفیسر سے رپورٹ طلب کی۔ جس کے بعد متاثرین کو نوجیون مہیلا وستی گرہ، دیونار ، ممبئی کی تحویل میں دیا گیا۔

مجسٹریٹ نے یہ بھی مناسب سمجھا کہ "نوجیون مہیلا وستی گرہ" میں قیام کے دوران ایک این جی او کے ذریعے ان تینوں خواتین کو ابتدائی تعلیم دینا مناسب ہے۔

مزید یہ کہ مجسٹریٹ نے متاثرین کو ان کی والدہ کی تحویل میں دینے انکار کردیا کیونکہ متاثرہ خواتین 20 سے 22 سال کی عمر کے درمیان جنسی کاموں میں ملوث پائی گئی تھیں۔

نیز پروبیشن آفیسر اور متعلقہ پولیس اہلکاروں کے ساتھ ساتھ مجسٹریٹ کی انکوائری سے انکشاف ہوا تھا کہ تینوں خواتین کا تعلق "بیدیا" برادری سے ہے۔

اس معاشرے میں ایک ایسی رسم رواج پائی ہے جہاں ایک لڑکیوں کو بلوغت کے بعد جسم فروشی کے لیے بھیجا جاتا ہے۔ متاثرین کے والدین کو معلوم تھا کہ ان کی بیٹی جسم فروشی کے کاروبار میں ملوث ہے۔

اس کے معنی یہ ہیں کہ والدین خود بھی اپنی بیٹیوں کو بطور پیشہ جسم فروشی کے کاروبار میں ملوث ہونے کی اجازت دے رہے ہیں اور اسی وجہ سے مجسٹریٹ نے مشاہدہ کیا کہ متاثرین کو ان کی ماؤں کی تحویل میں دینا محفوظ نہیں ہوگا۔

جس کے بعد تمام حقائق اور حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اور ایکٹ کے سیکشن 17 (1) ، (2) ، (3) ، (4) اور (6) کے بعد تینوں متاثرہ خواتین کو 19 اکتوبر 2019 کو ایک سال کی مدت کے لیے حراست میں لیا گیا تھا۔

عدالت نے ہدایت کی تھی کہ "ناری نکیتن پریاگ وستی گرہ، پھلٹ آباد، الہ آباد، اترپردیش کے کسی بھی سرکاری ادارہ میں ایک سال کے لیے ان کی پسند کے موضوع میں نگہداشت، تحفظ، پناہ گاہ اور پیشہ ورانہ تربیت کے لیے بھیجا جائے۔

مذکورہ حکم کو ڈنڈوشی میں سیشن جج کی عدالت میں 2019 اپیل نمبر 284 کے ذریعہ چیلنج کیا گیا تھا اور ایڈیشنل سیشن جج نے 19 اکتوبر 2019 کے مجسٹریٹ کے منظور کردہ آرڈر کی تصدیق کرتے ہوئے اپیل خارج کردی تھی۔

اس ضمن میں عدالت نے خصوصی طور پر مشاہدہ کیا کہ "اس قانون کے تحت ایسی کوئی شق نہیں ہے جو جسم فروشی کو جرم بنائے یا کسی شخص کو سزا دے کیوںکہ وہ جسم فروشی میں ملوث ہے۔اس ایکٹ کے تحت جو قابل سزا ہے وہ تجارتی مقصد اور روٹی کمانے کے لیے کسی شخص کا جنسی استحصال یا زیادتی ہے ۔۔۔۔"۔

عدالت نے یہ بھی کہا کہ متاثرہ افراد کو ان کی خواہش کے برخلاف غیر ضروری نظربندی کا نشانہ نہیں بنایا جاسکتا اور نہ ہی انہیں اصلاحی ادارے میں ہی رہنے کے لیے کہا جاسکتا ہے۔

عدالت نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ "قریب قریب ایک سال ہوا ہے کہ جسم فروشی میں ملوث افراد کو ان کی خواہش کے خلاف اصلاحی گھر میں حراست میں لیا گیا ہے انہیں فوری طور پر رہا کرنے کی ضرورت ہے''۔

نیز ، سپریم کورٹ نے پیر (21 ستمبر) کو مرکز اور ریاستی حکومتوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ جنسی کارکنوں کو موجودہ وبائی بیماری کی وجہ سے درپیش پریشانی کے باعث انھیں کھانا اور مالی امداد فراہم کرے۔

جسٹس ایل ناگیشورا راؤ اور ہیمنت گپتا کی بنچ نے مرکز اور ریاستی حکومت پر زور دیا کہ وہ ان خواتین کے شناخت کے مانگے بغیر انھیں راشن کے ساتھ ساتھ نقاب، صابن اور سینیٹائزر کی صورت میں امداد فراہم کرنے کے لیے فوری طور پر غور کریں۔

بامبے ہائی کورٹ نے اپنے ایک حالیہ فیصلے میں تین جسم فروش خواتین کو ایک اصلاحی ادارے سے فوری طور پر رہائی کا حکم دیتے ہوئے مشاہدہ کیا ہے کہ غیر اخلاقی ٹریفک (روک تھام) ایکٹ 1956 کے تحت جسم فروشی کوئی جرم نہیں ہے اور یہ کہ ایک بالغ عورت کو اپنی پسند کا پیشہ منتخب کرنے کا حق حاصل ہے اور اس کی رضامندی کے بغیر اسے حراست میں نہیں لیا جاسکتا۔

میٹروپولیٹن مجسٹریٹ، مجگاوں کے ذریعہ مذکورہ ایکٹ کی دفعہ 17 (2) کے تحت 19 اکتوبر 2019 کو دیے گئے ایک حکم کو چیلنج کرنے والی تین جسم فروش خواتین کی درخواست کے ساتھ ساتھ، ایڈیشنل سیشن جج ڈنڈوشی کی جانب سے 22 اکتوبر 2019 کے ایک حکم، جس میں انھوں نے 19 اکتوبر 2019 کے مذکورہ حکم کو برقرار رکھا تھا، کی سماعت جسٹس پرتھوی راج کے چوہان کی سنگل بنچ کر رہی تھی۔

تفصیلات اور مقدمہ کے پس منظر کے مطابق، پولیس کانسٹیبل روپیش رامچندر مور کو ایک خفیہ اطلاع ملی تھی کہ ملاڈ علاقے میں واقع ایک گیسٹ ہاؤس میں نظام الدین خان نامی ایک دلال خواتین کو جسم فروشی کے لیے فراہم کرتا ہے۔

اس کے بعد پولیس کارروائی میں اس پیشے میں ملوث ایک خاتون کو "ایک یاتری گیسٹ ہاؤس" کے کمرے نمبر 7 سے تحویل میں لیا گیا تھا۔ ملزم کے ساتھ ساتھ دیگر دو متاثرہ خواتین کو بھی گرفتار کرکے تحویل میں لیا گیا تھا۔ تینوں خواتین کو 13 ستمبر 2019 کو میٹرو پولیٹن مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا۔

جہاں مجسٹریٹ نے تینوں متاثرین کے سابقہ کردار اور ان کے اہلخانہ کے سلسلے میں پروبیشن آفیسر سے رپورٹ طلب کی۔ جس کے بعد متاثرین کو نوجیون مہیلا وستی گرہ، دیونار ، ممبئی کی تحویل میں دیا گیا۔

مجسٹریٹ نے یہ بھی مناسب سمجھا کہ "نوجیون مہیلا وستی گرہ" میں قیام کے دوران ایک این جی او کے ذریعے ان تینوں خواتین کو ابتدائی تعلیم دینا مناسب ہے۔

مزید یہ کہ مجسٹریٹ نے متاثرین کو ان کی والدہ کی تحویل میں دینے انکار کردیا کیونکہ متاثرہ خواتین 20 سے 22 سال کی عمر کے درمیان جنسی کاموں میں ملوث پائی گئی تھیں۔

نیز پروبیشن آفیسر اور متعلقہ پولیس اہلکاروں کے ساتھ ساتھ مجسٹریٹ کی انکوائری سے انکشاف ہوا تھا کہ تینوں خواتین کا تعلق "بیدیا" برادری سے ہے۔

اس معاشرے میں ایک ایسی رسم رواج پائی ہے جہاں ایک لڑکیوں کو بلوغت کے بعد جسم فروشی کے لیے بھیجا جاتا ہے۔ متاثرین کے والدین کو معلوم تھا کہ ان کی بیٹی جسم فروشی کے کاروبار میں ملوث ہے۔

اس کے معنی یہ ہیں کہ والدین خود بھی اپنی بیٹیوں کو بطور پیشہ جسم فروشی کے کاروبار میں ملوث ہونے کی اجازت دے رہے ہیں اور اسی وجہ سے مجسٹریٹ نے مشاہدہ کیا کہ متاثرین کو ان کی ماؤں کی تحویل میں دینا محفوظ نہیں ہوگا۔

جس کے بعد تمام حقائق اور حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اور ایکٹ کے سیکشن 17 (1) ، (2) ، (3) ، (4) اور (6) کے بعد تینوں متاثرہ خواتین کو 19 اکتوبر 2019 کو ایک سال کی مدت کے لیے حراست میں لیا گیا تھا۔

عدالت نے ہدایت کی تھی کہ "ناری نکیتن پریاگ وستی گرہ، پھلٹ آباد، الہ آباد، اترپردیش کے کسی بھی سرکاری ادارہ میں ایک سال کے لیے ان کی پسند کے موضوع میں نگہداشت، تحفظ، پناہ گاہ اور پیشہ ورانہ تربیت کے لیے بھیجا جائے۔

مذکورہ حکم کو ڈنڈوشی میں سیشن جج کی عدالت میں 2019 اپیل نمبر 284 کے ذریعہ چیلنج کیا گیا تھا اور ایڈیشنل سیشن جج نے 19 اکتوبر 2019 کے مجسٹریٹ کے منظور کردہ آرڈر کی تصدیق کرتے ہوئے اپیل خارج کردی تھی۔

اس ضمن میں عدالت نے خصوصی طور پر مشاہدہ کیا کہ "اس قانون کے تحت ایسی کوئی شق نہیں ہے جو جسم فروشی کو جرم بنائے یا کسی شخص کو سزا دے کیوںکہ وہ جسم فروشی میں ملوث ہے۔اس ایکٹ کے تحت جو قابل سزا ہے وہ تجارتی مقصد اور روٹی کمانے کے لیے کسی شخص کا جنسی استحصال یا زیادتی ہے ۔۔۔۔"۔

عدالت نے یہ بھی کہا کہ متاثرہ افراد کو ان کی خواہش کے برخلاف غیر ضروری نظربندی کا نشانہ نہیں بنایا جاسکتا اور نہ ہی انہیں اصلاحی ادارے میں ہی رہنے کے لیے کہا جاسکتا ہے۔

عدالت نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ "قریب قریب ایک سال ہوا ہے کہ جسم فروشی میں ملوث افراد کو ان کی خواہش کے خلاف اصلاحی گھر میں حراست میں لیا گیا ہے انہیں فوری طور پر رہا کرنے کی ضرورت ہے''۔

نیز ، سپریم کورٹ نے پیر (21 ستمبر) کو مرکز اور ریاستی حکومتوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ جنسی کارکنوں کو موجودہ وبائی بیماری کی وجہ سے درپیش پریشانی کے باعث انھیں کھانا اور مالی امداد فراہم کرے۔

جسٹس ایل ناگیشورا راؤ اور ہیمنت گپتا کی بنچ نے مرکز اور ریاستی حکومت پر زور دیا کہ وہ ان خواتین کے شناخت کے مانگے بغیر انھیں راشن کے ساتھ ساتھ نقاب، صابن اور سینیٹائزر کی صورت میں امداد فراہم کرنے کے لیے فوری طور پر غور کریں۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.