ETV Bharat / state

MPPSC Removed Arabic Persian ایم پی پی ایس سی نے سیٹ سے عربی فارسی کو ہٹایا

ریاست مدھیہ پردیش میں ایم پی پی ایس سی نے سیٹ امتحان سے عربی اور فارسی کو باہر کر دیا ہے۔ جس پر ریاست کے ادبی حلقے میں ناراضگی دیکھی جا رہی ہے۔ جسے لے کر اہم میٹنگ منعقد کی گئی ہے۔

18550336
18550336
author img

By

Published : May 20, 2023, 3:28 PM IST

ایم پی پی ایس سی نے سیٹ سے عربی فارسی کو ہٹایا

بھوپال: ریاست مدھیہ پردیش میں ایم پی پی ایس سی کے سیٹ امتحان سے عربی اور فارسی کو ہٹانے پر مدھیہ پردیش کے ادبی حلقے میں ناراضگی دیکھی گئی ہے۔ جسے لے کر آج کلم کار پریشد کے دفتر میں دانشوروں کی اہم میٹنگ منعقد کی گئی۔ جس میں عربی اور فارسی کو ایم پی پی ایس سی کے سیٹ میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ اس موقع پر قلم کار بریشد کے صدر علی عباس امید نے کہا کہ جب عربی اور فارسی یونیورسٹی اور کالجوں میں پڑھائی جا رہی ہے۔ اسے ایسے کیسے ختم کیا جاسکتا ہے۔ انہیں پہلے یونیورسٹی سے رابطہ قائم کرنا چاہیے تھا۔ انہوں نے کہا کہ عربی اور فارسی کو ختم کرنا اس طرح سے ہے جیسے کسی زوال پذیر قوم کو ختم کردیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جس طرح سے ریاست مدھیہ پردیش میں اردو کو ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اسی طرح سے اب عربی اور فارسی کے ساتھ سلوک کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ علی گڑھ، جامع حیدرآباد ایسی کئی جگہ ہیں جہاں پر عربی اور فارسی کو باقاعدہ پڑھایا جا رہا ہے۔ وہیں اس زبان کو طلباء پڑھ بھی رہے ہیں اس میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ اور اگر ایسے میں حکومت ایم پی پی ایس سی سے عربی اور فارسی کو ہٹا دیتی ہے تو یہ بہت غلط فیصلہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریاست مدھیہ پردیش میں کئی ایسے طلبا ہیں جو عربی اور فارسی کے مقابلہ جاتی امتحانات میں بیٹھنا چاہتے ہیں اور اگر ضرورت پڑے تو ان کی ایک فہرست بھی ہم حکومت کو مہیا کروا دیں گے۔ اس لیے ہم یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ اس فیصلے کو واپس لیا جائے اور عربی اور فارسی کو ایم پی پی ایس سی میں ایک بار پھر بحال کیا جائے۔

اس معاملے پر بھوپال کے ادیب پروفیسر نعمان خان نے کہا کہ یہ ہماری مشرقی زبانی ہے اور ہماری قومی نئی تعلیمی پالیسی میں صاف طور سے کہا گیا ہے کہ مادری زبان اور مشرقی زبان کو فروغ دیا جائے گا۔ تو اس کا فیصلہ تعداد کی بنیاد پر نہیں کیا جانا چاہیے۔ ہو سکتا ہے کسی سال کم داخل ہوئے ہوں۔ ایسی صورتحال میں کسی بھی زبان کو بند نہیں کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عربی اور فارسی کے لیے پریسیڈنٹ ایورڈ بھی ہر سال دیا جاتا ہے۔ اور ان کے اسکالرز کو تاحیات اس کا اعزازیہ دیا جاتا ہے۔ اس لیے ان زبانوں کو فروغ دینا چاہیے اور ہمارا آئین بھی یہی کہتا ہے اور ہماری قومی تعلیمی پالیسی بھی یہی کہتی ہے۔ اور آئین کا 351A بھی یہی کہتا ہے کہ بچے کو اس کی مادری زبان میں ہی تعلیم دی جائے۔

یہ بھی پڑھیں:

انہوں نے کہا کہ اگر وہ کالج یا یونیورسٹی میں سے یہ زبانیں پڑھ کر جاتا ہے تو آپ ان کا آگے دروازہ بند کر رہے ہیں اور ایسے میں ان کا مستقبل برباد ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ یہ مناسب بات نہیں ہے اور اس میں حکومت کا کوئی نقصان بھی نہیں ہے۔ اگر طلبا اس سال داخلہ نہیں لے پا رہے ہیں تو آنے والے سال میں داخلہ لے سکتے ہیں۔ اور اگر آپ ان زبانوں کو ختم کر دیں گے تو یہ غیر جمہوری عمل ہے اور اگر یہ فیصلہ ہے تو یہ بہت افسوسناک ہے۔ اور ہم اس کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔

میٹنگ میں موجود فرمان ضیائی نے کہا کہ یہ بہت افسوس ناک خبر ہے جو اخباروں کے ذریعے بھی ہم تک پہنچی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بچے عربی اور فارسی میں تعلیم اس لیے لے رہے تھے کیونکہ انہیں آگے سیٹ کے امتحانات میں حصہ لینا تھا۔ اور اگر عین ٹائم پر آپ اسے یہ کہہ کر بند کر دیتے ہیں کہ تین سال سے عربی اور فارسی میں کسی نے داخلہ نہیں لیا ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ طلبا کے یہ بات نالج میں نہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ جس طرح سے نئی تعلیمی پالیسی میں نصاب کو جوڑا جارہا ہے اور یہ کہا جا رہا ہے کہ آپ اپنی مادری زبان میں تعلیم حاصل کر سکتے ہیں تو ایسے میں حکومت طلبا کی امیدوں پر پانی پھیرنے جیسا کام کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ جہاں عربی اور فارسی کو بند کیا جارہا ہے تو وہیں دوسرے سبجیکٹ کو جوڑا بھی جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جہاں آپ کے پاس سارے وسائل موجود ہیں تو اسے سلسلہ وار کیوں نہیں چلایا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ طلبا ابھی صرف امتحانات ہی فائٹ کر رہے ہیں عہدہ تو انہیں تب ملے گا جب وہ پی ایس سی پاس کر لیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ عربی اور فارسی کو واپس جوڑا جائے ورنہ ہم اس کے خلاف سڑکوں پر اتر آئیں گے اور احتجاج کریں گے۔ اس لیے طالبات کی امیدوں پر پانی نہ پھیرا جائے اور اپنے فیصلے کو واپس لیا جائے۔

اس موقع پر برکت اللہ یونیورسٹی کی شعبہ عربی کی ایچ او ڈی طاہر عرب نے کہا کہ ایم پی پی ایس سی سے عربی اور فارسی کو نہیں ہٹایا جانا چاہیے۔ کیونکہ عربی اور فارسی طالبات کے لیے ایک بڑا اسکوپ ہے۔ اور یہ دونوں زبانیں انٹرنیشنل لیول پر جانی جاتی ہیں۔ اس زبان سے جہاں طلباء کو فائدہ ہوتا ہے وہیں ساری جگہوں کی تہذیب اور ثقافت کی عکاسی بھی ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک وقت میں یہ زبان ہندوستان کی سرکاری زبانیں بھی رہی ہیں اور خاص طور سے بھوپال کی بھی سرکاری زبان فارسی ہی رہی ہے۔ اس لیے اسے ہٹا غیر مناسب ہے۔
واضح رہے کہ ایم پی پی ایس سی میں عربی اور فارسی کو ہٹانے کی ایک وجہ یہ بھی بتائی جارہی ہے کہ عربی اور فارسی میں لگاتار طلبا کی کمی دیکھی گئی ہے۔ وہیں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ پچھلے تین سالوں سے عربی اور فارسی میں ایم پی پی ایس سی میں کسی بھی طلباء نے حصہ نہیں لیا ہے۔ وہیں طاہرہ عرب کے مطابق طالبات کی تعداد بلاشبہ کم ضرور ہو رہی ہے لیکن اس کی وجہ یہ ہے کہ ریاست کے سبھی کالجز میں عربی اور فارسی کے اساتذہ کو گیسٹ ٹیچر کے طور پر رکھا جا رہا ہے۔ عربی اور فارسی میں پرمننٹ نوکریاں نہیں ہیں اور اس میں طلباء کو اسکوپ کم نظر آ رہا ہے یہی وجہ ہے کہ بچوں کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے۔

ایم پی پی ایس سی نے سیٹ سے عربی فارسی کو ہٹایا

بھوپال: ریاست مدھیہ پردیش میں ایم پی پی ایس سی کے سیٹ امتحان سے عربی اور فارسی کو ہٹانے پر مدھیہ پردیش کے ادبی حلقے میں ناراضگی دیکھی گئی ہے۔ جسے لے کر آج کلم کار پریشد کے دفتر میں دانشوروں کی اہم میٹنگ منعقد کی گئی۔ جس میں عربی اور فارسی کو ایم پی پی ایس سی کے سیٹ میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ اس موقع پر قلم کار بریشد کے صدر علی عباس امید نے کہا کہ جب عربی اور فارسی یونیورسٹی اور کالجوں میں پڑھائی جا رہی ہے۔ اسے ایسے کیسے ختم کیا جاسکتا ہے۔ انہیں پہلے یونیورسٹی سے رابطہ قائم کرنا چاہیے تھا۔ انہوں نے کہا کہ عربی اور فارسی کو ختم کرنا اس طرح سے ہے جیسے کسی زوال پذیر قوم کو ختم کردیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جس طرح سے ریاست مدھیہ پردیش میں اردو کو ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اسی طرح سے اب عربی اور فارسی کے ساتھ سلوک کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ علی گڑھ، جامع حیدرآباد ایسی کئی جگہ ہیں جہاں پر عربی اور فارسی کو باقاعدہ پڑھایا جا رہا ہے۔ وہیں اس زبان کو طلباء پڑھ بھی رہے ہیں اس میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ اور اگر ایسے میں حکومت ایم پی پی ایس سی سے عربی اور فارسی کو ہٹا دیتی ہے تو یہ بہت غلط فیصلہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریاست مدھیہ پردیش میں کئی ایسے طلبا ہیں جو عربی اور فارسی کے مقابلہ جاتی امتحانات میں بیٹھنا چاہتے ہیں اور اگر ضرورت پڑے تو ان کی ایک فہرست بھی ہم حکومت کو مہیا کروا دیں گے۔ اس لیے ہم یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ اس فیصلے کو واپس لیا جائے اور عربی اور فارسی کو ایم پی پی ایس سی میں ایک بار پھر بحال کیا جائے۔

اس معاملے پر بھوپال کے ادیب پروفیسر نعمان خان نے کہا کہ یہ ہماری مشرقی زبانی ہے اور ہماری قومی نئی تعلیمی پالیسی میں صاف طور سے کہا گیا ہے کہ مادری زبان اور مشرقی زبان کو فروغ دیا جائے گا۔ تو اس کا فیصلہ تعداد کی بنیاد پر نہیں کیا جانا چاہیے۔ ہو سکتا ہے کسی سال کم داخل ہوئے ہوں۔ ایسی صورتحال میں کسی بھی زبان کو بند نہیں کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عربی اور فارسی کے لیے پریسیڈنٹ ایورڈ بھی ہر سال دیا جاتا ہے۔ اور ان کے اسکالرز کو تاحیات اس کا اعزازیہ دیا جاتا ہے۔ اس لیے ان زبانوں کو فروغ دینا چاہیے اور ہمارا آئین بھی یہی کہتا ہے اور ہماری قومی تعلیمی پالیسی بھی یہی کہتی ہے۔ اور آئین کا 351A بھی یہی کہتا ہے کہ بچے کو اس کی مادری زبان میں ہی تعلیم دی جائے۔

یہ بھی پڑھیں:

انہوں نے کہا کہ اگر وہ کالج یا یونیورسٹی میں سے یہ زبانیں پڑھ کر جاتا ہے تو آپ ان کا آگے دروازہ بند کر رہے ہیں اور ایسے میں ان کا مستقبل برباد ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ یہ مناسب بات نہیں ہے اور اس میں حکومت کا کوئی نقصان بھی نہیں ہے۔ اگر طلبا اس سال داخلہ نہیں لے پا رہے ہیں تو آنے والے سال میں داخلہ لے سکتے ہیں۔ اور اگر آپ ان زبانوں کو ختم کر دیں گے تو یہ غیر جمہوری عمل ہے اور اگر یہ فیصلہ ہے تو یہ بہت افسوسناک ہے۔ اور ہم اس کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔

میٹنگ میں موجود فرمان ضیائی نے کہا کہ یہ بہت افسوس ناک خبر ہے جو اخباروں کے ذریعے بھی ہم تک پہنچی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بچے عربی اور فارسی میں تعلیم اس لیے لے رہے تھے کیونکہ انہیں آگے سیٹ کے امتحانات میں حصہ لینا تھا۔ اور اگر عین ٹائم پر آپ اسے یہ کہہ کر بند کر دیتے ہیں کہ تین سال سے عربی اور فارسی میں کسی نے داخلہ نہیں لیا ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ طلبا کے یہ بات نالج میں نہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ جس طرح سے نئی تعلیمی پالیسی میں نصاب کو جوڑا جارہا ہے اور یہ کہا جا رہا ہے کہ آپ اپنی مادری زبان میں تعلیم حاصل کر سکتے ہیں تو ایسے میں حکومت طلبا کی امیدوں پر پانی پھیرنے جیسا کام کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ جہاں عربی اور فارسی کو بند کیا جارہا ہے تو وہیں دوسرے سبجیکٹ کو جوڑا بھی جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جہاں آپ کے پاس سارے وسائل موجود ہیں تو اسے سلسلہ وار کیوں نہیں چلایا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ طلبا ابھی صرف امتحانات ہی فائٹ کر رہے ہیں عہدہ تو انہیں تب ملے گا جب وہ پی ایس سی پاس کر لیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ عربی اور فارسی کو واپس جوڑا جائے ورنہ ہم اس کے خلاف سڑکوں پر اتر آئیں گے اور احتجاج کریں گے۔ اس لیے طالبات کی امیدوں پر پانی نہ پھیرا جائے اور اپنے فیصلے کو واپس لیا جائے۔

اس موقع پر برکت اللہ یونیورسٹی کی شعبہ عربی کی ایچ او ڈی طاہر عرب نے کہا کہ ایم پی پی ایس سی سے عربی اور فارسی کو نہیں ہٹایا جانا چاہیے۔ کیونکہ عربی اور فارسی طالبات کے لیے ایک بڑا اسکوپ ہے۔ اور یہ دونوں زبانیں انٹرنیشنل لیول پر جانی جاتی ہیں۔ اس زبان سے جہاں طلباء کو فائدہ ہوتا ہے وہیں ساری جگہوں کی تہذیب اور ثقافت کی عکاسی بھی ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک وقت میں یہ زبان ہندوستان کی سرکاری زبانیں بھی رہی ہیں اور خاص طور سے بھوپال کی بھی سرکاری زبان فارسی ہی رہی ہے۔ اس لیے اسے ہٹا غیر مناسب ہے۔
واضح رہے کہ ایم پی پی ایس سی میں عربی اور فارسی کو ہٹانے کی ایک وجہ یہ بھی بتائی جارہی ہے کہ عربی اور فارسی میں لگاتار طلبا کی کمی دیکھی گئی ہے۔ وہیں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ پچھلے تین سالوں سے عربی اور فارسی میں ایم پی پی ایس سی میں کسی بھی طلباء نے حصہ نہیں لیا ہے۔ وہیں طاہرہ عرب کے مطابق طالبات کی تعداد بلاشبہ کم ضرور ہو رہی ہے لیکن اس کی وجہ یہ ہے کہ ریاست کے سبھی کالجز میں عربی اور فارسی کے اساتذہ کو گیسٹ ٹیچر کے طور پر رکھا جا رہا ہے۔ عربی اور فارسی میں پرمننٹ نوکریاں نہیں ہیں اور اس میں طلباء کو اسکوپ کم نظر آ رہا ہے یہی وجہ ہے کہ بچوں کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.