جمیعۃعلماء مدھیہ پردیش کہ صدر حاجی ہارون کا ماننا ہے کہ سکھ سماج کی ترقی میں گرودوارہ پربندھک کمیٹیوں کا بڑا کردار ہوتا ہے اور گرودوارہ پربندھک کمیٹیوں میں لوگ انتظام دیکھنے کے لیے مقرر کیے جاتے ہیں ۔
ان کی تقرری حکومت کے ذریعے نہیں بلکہ سکھ سماج کے ذریعہ کی جاتی ہے- جب کہ وقف بورڈ کا پورا کنٹرول سرکار کے ہاتھوں میں ہوتا ہے۔
وقف املاک کو مسلم سماج کے لوگوں نے وقف ضرور کیا ہے مگر اس کی کمیٹی میں کسی کو بھیجنے کا اختیار مسلم سماج کو نہیں ہوتا ہے۔
حکومت انہیں لوگوں کو وقف کمیٹیوں میں رکھتی ہے جن کے پیش نظر مسلم سماج کی ترقی نہیں بلکہ سیاسی پارٹیوں کا نظریہ سب سے اوپر ہوتا ہے۔
مدھیہ پردیش وقف بورڈ کے زیر انتظام 29471 جائیداد رجسٹرڈ ہے۔ ریاست میں 5759 قبرستان,4619 مساجد,3643 درگاہ ہیں,610 عید گاہ,50 اسکول,228 دارالعلوم اور مدارس,51 مسافرخانہ,3966 دکانیں,5229 مکان اور 1787 کمیٹی کی زمین ہے۔
مگر بورڈ کے ناقص انتظام کے سبب ان سب سے اتنی بھی آمدنی نہیں ہوتی کہ بورڈ اپنا کام خود سے کر سکیں۔اگر حکومت کی جانب سے گرانڈ نہیں دی جائے تو بورڈ کے ملازمین کی تنخواہوں کے بھی لالے پڑ جائیں گے۔
مدھیہ پردیش جمعیت علماء ہند کے صدر حاجی محمد ہارون کہتے ہیں کہ جب تک وقف بورڈ سے سرکاری کنٹرول ختم نہیں ہوگا تب تک وقف املاک کے تحفظ اور وقف کی منشا پر کام نہیں ہو سکتا ہے۔ اس لیے ہمارا مطالبہ ہے کہ وقف بورڈ کا سرکاری کنٹرول ختم کرگرودوارہ پربندھک کمیٹیوں کےطرز پر وقف بورڈ کو بھی سرکاری کنٹرول سے آزاد کیا جائے۔ تب ہی وقف بورڈ اور مسلم سماج کی ترقی ہو سکے گی۔