بھوپال: ملک میں جب بھی کوئی انتخاب آتا ہے، تو مسلمانوں کے ووٹ لینے کے لیے سیاسی پارٹیوں کے ذریعہ سبھی قسم کے حربے استعمال کیے جاتے ہیں، لیکن مسلم قیادت کو فروغ دینے کے لیے کوئی بھی سیاسی پارٹی تیار نہیں ہے۔ پارلیمنٹ ہو یا صوبائی اسمبلی سبھی میں مسلم نمائندگی میں جس تیزی سے کمی آرہی ہے، اس نے مسلم دانشوران کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔Politics Of Muslim Vote Bank
مدھیہ پردیش کے اسمبلی میں 80 کی دہائی تک جس کانگریس پارٹی سے 14 مسلم ایم ایل ایز Muslim Leaders In MP ہوا کرتے تھے، اب وہ کانگریس پارٹی مدھیہ پردیش میں چار مسلمان کو بھی ٹکٹ دینا گوارا نہیں کرتی ہے۔ صرف مدھیہ پردیش ہی نہیں بلکہ پورے وسط ہند سے کانگریس نے گزشتہ 26 سالوں میں کسی مسلم نمائندے کو راجیہ سبھا میں نمائندگی نہیں دی ہے۔ حالانکہ مسلمان بی جے پی سے دوری اختیار کرتے ہیں، لیکن بی جے پی کے ذریعہ گزشتہ پانچ سالوں میں دو مسلمانوں کو راجیہ سبھا میں نمائندگی دی تھی۔ اس بار راجیہ سبھا کی تین سیٹوں کے لئے انتخاب ہونا ہے، لیکن بی جے پی اور کانگریس دونوں ہی پارٹیاں مسلم قیادت پر غور کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔
اس مسئلے پر ایڈوکیٹ شاہنواز خان کہتے ہیں کہ 90 کے بعد ملک کی سیاست میں جو تبدیلی آئی ہے، اس نے مسلم قیادت کو جس طرح سے حاشیہ پر پہنچایا ہے، اس کے لئے مسلمان خود اور سیاسی پارٹیاں دونوں ذمہ دار ہیں۔ ملک میں نفرت کی سیاست Politics Of Hate In India کی جو ہوا چل رہی ہے، اس میں مسلمان اس کا ایندھن بنا ہوا ہے۔ سبھی پارٹیوں کو ووٹ چاہئے، لیکن مسلم قیادت کسی کو بھی قبول نہیں ہے۔
وہیں مدھیہ پردیش بی جے پی کہ ترجمان نریندر شیواجی پٹیل Madhya Pradesh BJP spokesperson Narendra Shivaji کہتے ہیں کہ مسلمانوں کی پسماندگی کے لئے کانگریس پوری طرح ذمہ دار ہے۔ کانگریس نے مسلمانوں کو صرف ووٹ کے لئے استعمال کیا ہے۔ بی جے پی مذہب کی سیاست نہیں کرتی ہے۔ اس کے یہاں جو بھی ملک کی تعمیرو ترقی کے لئے کام کرتا ہے، اس کو پارٹی نمائندگی دیتی ہے۔ مدھیہ پردیش کانگریس ترجمان کے کے مشرا کہتے ہیں کہ ملک میں مسلمانوں کو کانگریس نے جتنی قیادت دی ہے اس کی مثال کوئی دوسری پارٹی نہیں پیش کر سکتی ہے۔ بی جے پی حکومت میں مدھیہ پردیش میں کیا ہو رہا ہے یہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیں: Uttar Pradesh Assembly Election 2022: یوپی انتخابات پر مسلم دانشور کیا سوچتے ہیں؟
مدھیہ پردیش میں بی جے پی ہارڈ ہندتوا تو کانگریس سافٹ ہندتوا کی راہ پر گامزن ہیں۔ کانگریس کو مسلمانوں کا ہمدرد کہا جاتا ہے، لیکن گزشتہ 26 سالوں میں کانگریس نے ایم پی ہی نہیں پورے سینٹرل انڈیا سے کسی مسلمان کو راجیہ سبھا میں نمائندگی نہیں دی ہے جبکہ مسلمانوں کی دشمن سمجھی جانے والی پارٹی بی جے پی نے گزشتہ پانچ سالوں میں ایم جے اکبر اور نجمہ ہیپت اللہ کی شکل میں دولوگوں کو راجیہ سبھا میں نمائندگی دے چکی ہے۔ بدلے ہوئے حالات میں مسلمانوں کو اپنے سیاسی نقطہ نظر کے لئے بی جے پی اور کانگریس کی سیاست سے باہر نکلنا ہوگا تبھی ان کی قیادت کو کوئی مل سکتا ہے۔ Politics Of Muslim Vote Bank