ریاست کرناٹک میں بھارتی جنتا پارٹی کی برسر اقتدار حکومت نے ریاست بھر میں ہورہے احتجاجوں کو درکنار کرکے انسداد گئو کشی آرڈیننس کو قانون کی شکل دیدی ہے اور ریاست میں اس کا نفاذ بھی ہو چکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بی جے پی حکومت نے اس آرڈیننس کو جاری کرنے میں بہت زیادہ جلدبازی دکھائی ہے، حکومت نے سوچا ہی نہیں کہ اس قانون سے منفی اثرات بھی پڑ سکتے ہیں، حال ہی میں ریاست میں قانون کے نفاذ کے ساتھ دو معاملے درج کیے گئے ہیں، جن میں جانوروں کو ٹرانسپورٹ کر رہے افراد پر سماج دشمن عناصر کا الزام عائد کرکے ان پر حملہ کیا گیا اور انہیں بعد میں شدید زخمی حالت میں اسپتال میں داخل کرایا گیا ہے۔
سماجی کارکن کی جانب سے اس معاملے کے خلاف عرضی داخل کرنے والے وکیل رحمت اللہ کوتوال نے کہا ہے کہ اس قانون کے نافذ ہونے سے قریشی طبقہ کے 12 لاکھ افراد کی معاشی زندگی بری طرح متاثر ہوگی۔اتنا ہی نہیں اس آرڈینسس میں تمام مویشی جانور جیسے بھینس، بیل اور گائے کا بچھڑا کی ذبیحہ پر پابندی عائد کردی گئی ہے، لیکن پہلے صرف گائے یعنی دودھ دینے والی گائے کی ذبیحہ پر پابندی عائد کی گئی تھی۔
انہوں نے امید ظاہر کی ہے کہ اس معاملے میں کورٹ مثبت فیصلہ سنائے گا اور کسان و اس سے جڑے دیگر کاروباریوں کو راحت ملے گی۔
مزید پڑھیں:انسداد گئو کشی آرڈینس پر ہائی کورٹ کا کرناٹک حکومت کو نوٹس
واضح رہے کہ سماجی کارکن کی جانب سے وکیل رحمت اللہ کوتوال نے انسداد گؤکشی آرڈیننس کے خلاف عرضی داخل کی ہے۔سماجی کارکن عارف جمیل کی جانب دائر مفاد عامہ کی عرضی پر کرناٹک ہائی کورٹ نے ریاست کی بی جے پی حکومت کو منگل کے روز نوٹس جاری کیا ہے۔چیف جسٹس اے ایس اوکا کی سربراہی والی دو رکنی بینچ نے ریاست کی بی جے پی حکومت کو نوٹس جاری کرتے ہوئے مفاد عامہ کی عرضی پر 17 فروری تک جواب داخل کرنے کو کہا ہے۔'
عرضی گزار نے مفاد عامہ کے دفعہ 5 کے تحت مذکورہ آرڈیننس کو نافذ نہ کرنے کی درخواست کی ہے۔ مزید عرضی میں کہا گیا ہے کہ جانوروں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لینے جانے میں کافی دشواریوں کا سامنا ہے۔وہیں ہائی کورٹ نے 18 جنوری تک سماعت ملتوی کردی ہے۔