حیدرآباد، (پریس نوٹ): صحافی حضرات صرف تکنیک پر نہیں بلکہ مواد پر بھی توجہ دیں۔ کیونکہ اخبارات کے قاری روز بروز کم ہوتے جارہے ہیں اور ڈیجیٹل صارفین کی تعداد بڑھتی ہی جارہی ہے۔ ان خیالات کا اظہار برجیش مشرا، ایڈیٹر ان چیف بھارت سماچار نے کیا۔ وہ شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں موبائل اور ڈاٹا جرنلزم کے دو روزہ ورکشاپ کے افتتاحی اجلاس کو مخاطب کر رہے تھے۔
انہوں نے کہا کہ خبر نگاری کا عمل ایک انقلابی دور سے گزر رہا ہے۔ ایسے میں صحافیوں کو ہر طرح کے چیلنجس سے نمٹنے کے لیے تیار ہونا چاہیے اور روایتی میڈیا سے ہٹ کر ڈیجیٹل میڈیا کے لیے طلبہ کو تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ قبل ازیں دو روزہ ورکشاپ کے آغاز میں پروفیسر محمد فریاد، صدر و ڈین ایم سی جے، مانو نے مہمانوں کا خیر مقدم کیا۔ پروفیسر احتشام احمد خان نے ورکشاپ کے اغراض و مقاصد بیان کیے۔
ورکشاپ کے افتتاحی اجلاس میں صدارتی خطبہ دیتے ہوئے وائس چانسلر پروفیسر سید عین الحسن نے طلبہ پر زور دیا کہ وہ زبان سے بہتر طور پر واقفیت حاصل کریں۔ اور صحافت کا مثبت استعمال کریں۔ انہوں نے کہا کہ صحافت اور ادب میں فاصلے ضرور بڑھ گئے ہیں لیکن طلبائے صحافت کو چاہیے بلا کسی ڈر اور خوف کے سچائی کو سامنے لانے کا کام کریں۔ انہوں نے موبائل جرنلزم کے استعمال میں اخلاقیات کو فراموش کرنے پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ ہمیں اس کا استعمال مثبت انداز میں کرنا ہوگا۔
فہیم قریشی، صدر ٹمریز ورکشاپ کے اس افتتاحی اجلاس کے مہمانِ خصوصی تھے۔ اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے مانو کے ساتھ باہمی مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا اور کہا کہ مانو کے ساتھ ٹمریز مل کر کام کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ افتتاحی اجلاس کو بی بی سی ہندی کے سربراہ نتن شریواستو نے بھی مخاطب کیا۔ مسٹر معراج احمد، اسسٹنٹ پروفیسر نے افتتاحی اجلاس کی کارروائی چلائی۔ ڈاکٹر محمد مصطفی علی سروری، اسوسیئٹ پروفیسر نے شکریہ ادا کیا۔
شعبہ ترسیل عامہ و صحافت کے زیر اہتمام دو روزہ ورکشاپ موبائل اور ڈاٹا جرنلزم کے موضوع پر 26 ستمبر کو صبح 10 بجے آغاز ہوا۔ پہلے دن کا پہلا تکنیکی سیشن موبائل جرنلزم کے موضوع پر منعقد ہوا۔ جس میں نتن شریواستو نے اس موضوع پر مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ صحافی کا بنیادی مقصد سوال پوچھنا ہے اور یہ سوال عوامی مفاد میں ہونا چاہیے۔ ان کے مطابق موجودہ دور میں صحافت کی غیر جانب داریت، شفافیت اور متوازن موقف کی اہمیت کافی بڑھ گئی ہے اور بہت سارے صحافیوں نے سوالات پوچھنے بند کر دیے ہیں۔ یہ ایک تشویشناک امر ہے۔
گزشتہ 18 برسوں سے بی بی سی سے وابستہ سینئر صحافی نتن شریواستو کا کہنا تھا کہ موبائل جرنلزم کے لیے سب سے بڑا چیلنج منفی اور غیر مصدقہ معلومات ہیں۔ ان کی ترسیل کا یہ رجحان لوگوں کی رائے کو متاثر کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ موبائل جرنلزم نے صحافت کو دو طرفہ ترسیل کا ایک موثر ذریعہ بنادیا ہے۔ ان کے مطابق اب صحافت کا مستقبل موبائل جرنلزم ہی ہے۔
طلبہ صحافت کو نتن شریواستو نے مشورہ دیا کہ وہ صرف ٹیکنالوجی پر انحصار نہ کریں بلکہ انفرادی طور پر اپنی صلاحیتوں کو نکھاریں۔ ان کے مطابق موبائل جرنلزم نے خبر رسانی کے روایتی طریقوں کو یکسر بدلنے کا کام کردیا ہے۔ ایسے میں طالب علم کی چستی پھرتی اور ذہانت اسے سبقت دلاسکتی ہے۔ اس پہلے تکنیکی اجلاس میں صدر شعبہ پروفیسر محمد فریاد نے ابتدائی کلمات ادا کیے۔ ڈاکٹر محمد مصطفی علی سروری نے ماڈریٹر کے فرائض انجام دیئے۔
دوسرا تکنیکی اجلاس "ڈیجیٹل دور میں خبروں کا اعتماد" کے موضوع پر ہوا۔ یونیورسٹی آف کشمیر کی پروفیسر سیدہ افشانہ نے لیکچر دیا۔ انہوں نے طلبائے صحافت پر زور دیا کہ وہ سب سے پہلے صحافت کے بنیادی اصولوں پر مہارت حاصل کریں۔ اس کے بعد اس پیشہ کے لیے درکار صلاحیتوں سے اپنے آپ کو آراستہ کریں۔ پروفیسر افشانہ نے ڈیجیٹل جرنلزم کے موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اس کا صحت مند استعمال اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس کے ذریعہ سے لوگوں کے نقطہ نظر کو آسانی سے بدلا جاسکتا ہے۔ کیوں کہ اس کی رسائی عام آدمی تک آسان ہے۔
ان کے مطابق ایک سروے سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ عوام کی اکثریت صحافت کی جانب سے دی جانے والی اطلاعات پر پوری طرح بھروسہ نہیں کرتی۔ عوام کا بھروسہ حاصل کرنے کے لیے صحافت کو شفافیت اور اخلاقی معیار جیسے امور پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس دوسرے تکنیکی اجلاس میں ڈاکٹر معراج احمد مبارکی نے ماڈریٹر کے فرائض انجام دیئے۔
ایک صحافی پر ڈھیر ساری ذمہ داریاں ہوتی ہیں:
ایک صحافی پر ڈھیر ساری ذمہ داریاں ہوتی ہیں جن کو نبھانا آسان نہیں ہے۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر اشیاق احمد، رجسٹرار، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی نے کیا۔ وہ شعبہ ترسیل عامہ و صحافت، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں موبائل اور ڈاٹا جرنلزم کے دو روزہ ورکشاپ کے اختتامی اجلاس کو مخاطب کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا میں غیر اہم موضوعات حاوی ہوتے جارہے ہیں، یہ ایک ناخوشگوار پہلو ہے۔
پروفیسر اشیاق احمدنے تمام مہمانانِ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ بہت خوشی کی بات ہے کہ پروگرام میں میڈیا کے طلبا کے لیے ملک کے مختلف جگہوں سے ماہرین کو مدعو کیا گیا اور موبائل اور ڈاٹا جرنلزم پر جانکاری فراہم کی گئی۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ شعبہ کے طلبا اچھی تعلیم حاصل کرکے اس فیلڈ میں بہترین کام کریں گے۔
جناب جنید بہلمی، ممتاز ماہر تعلیم نے کہا کہ ایک صحافی بننے کے لیے بہترین اسکل کی بہت ضرورت ہوتی ہے۔ پروفیسر سیدہ افشانہ، میڈیا ایجوکیشن ریسرچ سنٹر یونیورسٹی آف کشمیر، سری نگر نے اپنے خطاب میں کہا کہ میڈیا انڈسٹری میں شناخت کو یقینی بنانے کے لیے مواد کی اہمیت پر زور دیں۔ انہوں نے کہا کہ صحافی بریکنگ نیوز کی چکر میں نہ پڑیں بلکہ خبروں کی اہمیت پر زور دیں۔
اختتامی اجلاس کے مقررین میں پروفیسر آتش پراشر، سابق ڈین، اسکول آف میڈیا، آرٹس اینڈ ایستھیٹکس، سی یو ایس بی، گیا اور جناب شاہد قاضی بھی شامل تھے۔ صدر شعبہ ترسیل عامہ وصحافت، پروفیسر محمد فریاد نے خیر مقدمی کلمات ادا کرتے ہوئے کہا کہ بہت خوشی کی بات ہے پروگرام میں 11 ریاستوں سے مہمان تشریف لائے ہیں اور طلبا سے مخاطب کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ شہر حیدرآباد کے بھی مختلف میڈیا اداروں کے صحافیوں نے بھی اس ورکشاپ میں شرکت کی۔
جناب طاہر قریشی، اسسٹنٹ پروفیسر نے اختتامی اجلاس کی کارروائی چلائی جبکہ جناب معراج احمد، اسسٹنٹ پروفیسر نے شکریہ ادا کیا۔ دوسرے دن کے پہلے تکنیکی سیشن میں ڈاکٹر رنجیت کمار، ڈاکٹر امرت کمار، ڈاکٹر ذیشان، محترمہ تزئین پٹھان، بی بی سی اور مسٹر غلام جیلانی نے مخاطب کیا جبکہ دوپہر کے سیشن کو ڈاکٹر ایم آصف علی، ڈاکٹر سرفراز انصاری، ڈاکٹر عبداللہ اور جناب شاہد قاضی نے مخاطب کیا۔