سابق وزیراعلیٰ شیبو سورین نے دمکا میں کھجوریا واقع رہائش پر نامہ نگاروں سے بات چیت میں کہا کہ ریاستی حکومت جھارکھنڈ کے قبائلیوں اور اصل باشندوں کو ان کا واجب حق دلانے کے لیے مقامی پالیسی میں تبدیلی لائے گی اور انتخابی منشور کے تحت سرکاری نوکریوں میں ترجیحات کے لیے سنہ 1932 کے قریب ہوئے آخری سروے میں درج کھتیانی رعیتوں کا فائدہ مہیا کرانے کی تجویز لائے گی۔
جے ایم ایم صدر نے کہا کہ سابق وزیراعلیٰ رگھور داس کی قیادت والی بھارتیہ جنتا پارٹی ( بی جے پی) حکومت کے ذریعہ مقامی پالیسی میں سنہ 1985 تک کی تاریخ کا کٹ آف ڈیٹ مقرر کیے جانے سے جھارکھنڈ کے اصل باشندوں اور قبائلیوں کو ان کے حق اور حقوق سے محروم کر دیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ریاست میں وزیراعلیٰ ہیمنت سورین کی قیادت میں بنی مہاگٹھ بندھن کی نئی حکومت سنہ 1932 کٹ آف ڈیٹ نافذ کرے گی۔
سورین کے اس بیان کی اپوزیشن بی جے پی نے زبردست مخالفت کی ہے۔ گڈا سے بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ نشی کانت دوبے نے سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ فیس بک پر کہا کہ ہمارے سنتھال پرگنہ میں سنتھال 1810 کے آس پاس آئے۔ یہاں کے اصل قبائلی پہاڑیاں، گھٹوال، کھیتوری اور کڈمی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بعد میں آنے کی وجہ سے لگ بھگ 50 فیصد سنتھال قبائیلیوں کے پاس کوئی کھتیان نہیں ہے۔
دوبے نے کہا کہ جھارکھنڈ میں تقریبا 55 لاکھ مسلمان ہیں اور ان میں سے تقریبا 35 لاکھ لوگوں کے پاس کھیتان نہیں ہے کیونکہ زیادہ تر بنگلہ دیش یا دیگر ریاستوں سے آئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پورا جمشید پور شہر ٹاٹا کا ہوگا، پورا دھنباد، بوکارو، ہزاری باغ اور رانچی دیو گھر، دمکا شہر ویران ہو جائے گا۔
رکن پارلیمنٹ نے کہا کہ ”میںگروجی کی عزت کرتے ہوئے وزیراعلیٰ ہیمنت سورین، کانگریس اور اصل باشندہ کی بات کرنے والے جھارکھنڈ کے سبھی رہنماؤں کو چیلنج دیتا ہوں کہ ان کی قول و فعل میں تضاد نہیں ہے تو سنہ 1932 کٹ آف ڈیٹ کے کھتیان کا نظم ایک ماہ کے اندر نافذ کریں۔ ہماری نیک تمنائیں ان کے ساتھ ہیں۔
وہیں سنہ 2019 کے اسمبلی انتخاب سے قبل جے ایم ایم چھوڑ کر بی جے پی میں شامل بہرا گوڑا کے سابق رکن اسمبلی کنال نے سورین کے بیان کی مخالفت میں مائیکرو بلاگنگ سائٹ ٹوئٹر پر ٹوئٹ کیا کہ ’اپوزیشن کے جو ساتھی اس سے متفق ہیں کہ ریاست کے انسانی وسائل کے لیے بنے امکانات کھتیان کی بنیاد پر مقامی پالیسی سے محفوظ رہیں گی تو پھر ملک کے امکانات کو غیر قانونی طریقے سے آئے باہری لوگوں سے بچانے کے لیے بنے شہریت ترمیمی قانون( سی اے اے ) پر بھی ان کی مخالفت کیوں۔
غور طلب ہے کہ رگھور داس نے سنہ 2016 میں کابینہ کے اجلاس میں جھارکھنڈ کی مقامی پالیسی کے لیے کٹ آف ڈیٹ سنہ 1985 مقرر کرنے سے متعلق تجویز کو منظوری دی تھی۔ وہاں مقامی پالیسی کو لے کر ہی سنہ 2002 میں جھارکھنڈ میں جم کر مخالفت ہوئی تھی اور ریاست کے پہلے وزیراعلیٰ بابو لال مرانڈی کو اپنا عہدہ چھوڑنا پڑا تھا۔
مقامی مسئلے پر وزیراعلیٰ ہیمنت سورین کے ذریعہ سنہ 2013 میں دیے گئے بیان پر حکومت میں شامل حلیف جماعتیں کانگریس اور راشٹریہ جنتادل ( آرجے ڈی) نے سوال اٹھائے تھے۔
سورین نے کہا تھا کہ جن کا نام کھتیان میں ہے وہی اصلی جھارکھنڈی ہیں۔ جھارکھنڈ کے بڑے حصے میں سروسے کے بعد 1932 میں کھتیان بنا تھا اس لیے 81 برس پہلے جن لوگوں کے نام کھتیان میں تھے وہی جھارکھنڈی ہوں گے۔ لیکن سنہ 2019 میں اسمبلی انتخاب میں جے ایم ایم کے کارگذار چیئر مین ہیمنت سورین کی قیادت میں مہاگٹھ بندھن کی نئی حکومت آنے کے بعد اس کٹ آف ڈیٹ کو رد کرکے سنہ 1932 کے کھیتانی رعیت کو بنیاد مان کر مقامی لوگوں کی تعریف وضع کرنے کا من بنایا ہے۔