پانی کے لیے جدوجہد کی داستان سناتے ہیمبرم تب 16 سال کے تھے۔ ریاست جھارکھنڈ (Jharkhand) کے جمشیدپور (Jamshedpur) سے بیس کلومیٹر فاصلے پر سرجامدا کے گاؤں جسکنڈی میں پانی کی شدید قلت تھی۔
گاؤں میں زیر زمین پانی کی سطح اتنی نیچے چلی گئی تھی کہ ہینڈ پمپ سے پانی کا ایک قطرہ بھی نکلنا بہت مشکل ہو گیا تھا۔ گرمی کے دنوں میں کنویں سوکھ جاتے تھے۔ لوگوں کو پانی کے لیے ہر دن لمبا سفر طے کرنا پڑتا تھا۔
پریشانی کے بعد لوگوں کو پانی کی قیمت کا احساس ہوا اور پھر اس کے تحفظ کی کوشش کی گئی۔ مقامی لوگوں کی اس کوشش کو ٹاٹا اسٹیل رورل ڈیولپمنٹ نے تعاون دیا۔
مقامی باشندوں نے ایک گرام سبھا منعقد کرکے پانی کے ہر قطرہ کو بچانے کا فیصلہ کیا۔ ٹاٹا کے اشتراک سے دیہی باشندوں نے بارش کے پانی کو ضائع ہونے سے روکنے کا منصوبہ بنایا۔
اس کے لیے جھوپڑی نما کھپریل مکانوں کی چھت کے چاروں طرف نالیاں بنائی گئیں۔ بارش کا پانی کھپریل سے ہوتے ہوئے نالیوں میں آتا ہے، پھر پائپ کے ذریعے پانی کو پرانے بوریویل کے گڈھوں یا پرانے خشک کنویں میں پہنچایا جاتا ہے۔
اس طرح بارش کا پانی ضائع ہونے کے بجائے راست طور پر زمین میں چلا جاتا ہے، جس کی وجہ سے زیر زمین پانی کی سطح بہتر ہوتی ہے۔
اسے تیار کرنے میں ہر مکان پر تقریباً ڈیڑھ ہزار روپے خرچ ہوئے۔ ٹاٹا نے لوگوں کو اس کے لیے فنڈز مہیا کرایا۔ اس گاؤں جسکنڈی میں تقریباً 20 مکانات ہیں۔ یومیہ مزدوری کر اپنی زندگی گزارنے والے یہاں کے لوگوں کے لیے شروع میں یہ منصوبہ بہت زیادہ فائدہ مند دکھائی نہیں دیا لیکن اب اس گاؤں کے کنوئیں اور ہینڈ پمپ میں پورے سال پانی رہتا ہے۔ یہاں تک کہ قریب کے دوسرے گاؤں کے لوگ بھی یہاں پانی لینے آتے ہیں۔
اس وقت گاؤں میں زیرزمین پانی کی سطح 30 فٹ ہے جبکہ گرمیوں میں یہ 40 فٹ ہو جاتی ہے۔
برسات کے دنوں میں پانی کے تحفظ کا نتیجہ ہے کہ اب جسکنڈی کی خواتین کو پانی کے لئے دوسرے گاؤں نہیں جانا پڑتا ہے۔
رین واٹر ہارویسٹنگ (Rainwater harvesting) کے لیے یہ گاؤں ایک مثال بن گیا ہے اور ایسا منصوبہ بنا کر دوسرے کئی گاؤں لوگ نہ صرف پانی کی پریشانی سے نجات حاصل کر چکے ہیں بلکہ ہر سال لاکھوں لیٹر بارش کا پانی ضائع ہونے سے بچارہے ہیں۔