عمر عبداللہ نے جموں و کشمیر حکومت کے زرعی اراضی کے تحفظ سے متعلق دعوے کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایک معمولی سرکاری حکم نامے یا دستخط کے ذریعے زرعی زمین کو غیر زرعی زمین میں تبدیل کر کے فروخت کیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جہاں بی جے پی حکومت والی ریاستوں میں نوکریاں صرف مقامی نوجوانوں کو ہی دینے کے حکم نامے جاری ہو رہے ہیں وہیں جموں و کشمیر میں مقامی لوگوں سے اراضی، نوکریوں اور اسکالر شپ کے حقوق چھینے جا رہے ہیں۔
عمر عبداللہ نے یہ باتیں جمعہ کے روز شیر کشمیر بھون میں نیشنل کانفرنس کے لیڈران و کارکنوں کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہیں۔ وہ اور ان کے والد ڈاکٹر فاروق عبداللہ پانچ اگست 2019 کے بعد پہلی بار جموں کے دورے پر ہیں اور یہاں انہوں نے اپنی جماعت کے لیڈران و کارکنوں سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔
عمر عبداللہ نے جموں و کشمیر کے نئے اراضی قوانین پر حکومتی وضاحت کو مسترد کرتے ہوئے کہا: 'کہتے ہیں کہ کسانوں کی زمین کو کچھ نہیں ہوگا۔ لیکن اس دعوے میں کوئی صداقت نہیں ہے۔ اراضی قوانین میں صاف طور پر لکھا ہے کہ ایک معمولی سرکاری حکم نامے یا دستخط کے تحت زرعی زمین کو غیر زرعی زمین میں تبدیل کر کے فروخت کیا جا سکتا ہے'۔
پاکستان جانا ہوتا تو 1947 میں ہی چلے گئے ہوتے: فاروق عبداللہ
انہوں نے کہا: 'جس آر ایس پورہ کی باسمتی چاول ملک کے مختلف حصوں کو سپلائی ہوتی ہے اس آر ایس پورہ کے کسان کو آج یہ یقین نہیں ہے کہ وہ اگلے سال اس زرعی زمین کا مالک ہوگا یا نہیں۔ زمین ہماری نہیں، نوکریاں ہماری نہیں، سکالر شپ ہمارا نہیں'۔
واضح رہے کہ جموں و کشمیر حکومت نے چند روز قبل دعویٰ کیا کہ نئے اراضی قوانین کے تحت 90 فیصد اراضی، جو کہ زرعی ہے، کو مکمل تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔
حکومت نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ زرعی اراضی صرف مقامی کاشت کاروں کو ہی فروخت کی جا سکے گی اور یہاں تک کہ جموں و کشمیر کے وہ باشندے، جو کاشت کار نہیں ہیں، وہ بھی زرعی زمین نہیں خرید سکیں گے۔
نیشنل کانفرنس نائب صدر نے بی جے پی حکومت والی ریاستوں میں لئے گئے حالیہ فیصلوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: 'عجیب بات یہ ہے کہ باقی ریاستوں میں یہی بی جے پی والے الگ انداز میں بات کرتے ہیں۔ ہریانہ میں بی جے پی حکومت نے کل ہی اعلان کیا کہ 75 فیصد نوکریوں پر صرف ہریانوی لوگوں کا ہی حق ہوگا'۔
انہوں نے کہا: 'وہاں کے لئے ایک قانون لیکن جب ہم اپنی نوکریاں اپنے لئے بچاتے تھے تو ہم سے کہا جاتا تھا کہ آپ لوگ اینٹی نیشنل ہیں۔ ہم سے کہا جاتا تھا کہ ایک ملک میں الگ الگ نظام نہیں چل سکتا'۔
وہ وقت ضرور آئے گا جب مرکزی حکومت جموں و کشمیر کی عوام سے معافی مانگے گی: محبوبہ مفتی
عمر عبداللہ نے سوالیہ لہجے میں کہا کہ 'کیا جموں و کشمیر کے لوگوں سے سیاسی انتقام لیا جا رہا ہے؟ انہوں نے زور دے کر کہا کہ یہاں کا کوئی بھی باشندہ 5 اگست کے فیصلوں کے ساتھ نہیں ہے۔
انہوں نے کہا: 'کچھ لوگ کھلے عام اپنی ناراضگی ظاہر کرتے ہیں تو کچھ لوگ دبے لفظوں میں۔ پروپیگنڈا میں بی جے پی والوں کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔ اس سے پہلے اگر مقابلہ تھا تو وہ ہٹلر کی حکومت کے ساتھ تھا۔ اس کے بعد شاید ہی کوئی حکومت آئی ہوگی جس نے پروپیگنڈا کا اتنا استعمال کیا ہو'۔
انہوں نے کہا: 'جیسے ہی کوئی دفعہ 370 کی بات کرتا ہے تو بی جے پی والوں کی مشین چالو ہو جاتی ہے۔ دفعہ 370 پاکستان کے آئین میں نہیں تھا۔ اگر اس کا ذکر تھا تو ہندوستان کے آئین میں تھا'۔
ان کا مزید کہنا تھا: 'ہم جو لڑائی لڑ رہے ہیں وہ کسی مخصوص علاقے یا مذہب کی لڑائی نہیں بلکہ ہم سب کی لڑائی ہے۔ ہم اس لڑائی سے پیچھے نہیں ہٹیں گے اور انشاء اللہ کامیابی حاصل کر کے ہی دم لیں گے'۔
عمر عبداللہ نے کہا کہ بدقسمتی سے آج ہم جس دور سے گزر رہے ہیں، سچ اور جھوٹ کی بہت بڑی لڑائی لڑی جا رہی ہے کیونکہ کچھ لوگوں کے لئے جھوٹ بولنا بہت ہی آسان ہوگیا ہے۔
انہوں نے کہا: 'پانچ اگست 2019 سے پہلے ملک اور جموں و کشمیر کے عوام کو بہت جھوٹ سنائے گئے۔ یہ بتایا گیا کہ یہاں ترقی اور روزگار نہیں ہے۔ یہاں غربت ہے۔ یہاں لوگ فاقہ کشی سے مر رہے ہیں۔ یہاں پر علیحدگی پسند لوگ زیادہ ہیں۔ چونکہ یہاں دفعہ 370 ہے اس وجہ سے یہاں کے لوگ ملک کے ساتھ نہیں ہیں۔ طرح طرح کے شوشے چھوڑے گئے'۔
انہوں نے کہا: 'ملکی عوام کو یہ کہا گیا کہ اگر دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے ہٹا تو جموں و کشمیر کی تمام بیماریاں راتوں رات دور ہوجائیں گی۔ آج ایک سال اور تین مہینے گزر چکے ہیں۔ کس بیماری کا علاج ہمارے سامنے ہے۔ کہاں ہے وہ ترقی کا دور جس کا وعدہ کیا گیا تھا؟'۔
کشمیر: نامساعد حالات میں صداقت پر مبنی رپورٹنگ کرنے والے نذیر مسعودی
عمر عبداللہ نے کہا کہ یہ کہا گیا تھا کہ اس فیصلے کے ساتھ ہی علاحدگی پسند بھی قومی دھارے میں شامل ہو جائیں گے لیکن آج میں یہ دعوے سے کہتا ہوں کہ جو لوگ ہندوستان کے خلاف سوچ رکھتے تھے وہ دفعہ 370 ہٹنے کے بعد نزدیک آنے کی بجائے زیادہ دور چلے گئے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا: 'نوجوانوں کی طرف سے جنگجو تنظیموں کی صفوں میں شمولیت کے رجحان میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ کیونکہ ہم نے اپنے کرتوتوں سے ان نوجوانوں کو مزید دور کر دیا۔ مجھے تو ترقی کہیں نظر نہیں آتی'۔
عمر عبداللہ نے کہا کہ نیشنل کانفرنس نے کبھی علاقائی، ایک علاقے کو دوسرے علاقے سے لڑانے اور مذہبی سیاست نہیں کی ہے۔ ہم شیر کشمیر کے نعرے 'ہندو مسلم سکھ اتحاد' پر قائم ہیں۔