واضح رہے کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا ایسا معاملہ ہے۔
جموں یونیورسٹی میں بحیثیت پروفیسر کام کار رہی رینو نندا کی شادی 1994 میں ریاست مغربی بنگال میں ہوئی اور1998 میں ان کا طلاق ہوا۔
اس دوران رینو نندا نے جموں میں ہی اپنے دو بچوں - مادھو کمار اور کیسو کمار - کی پرورش کی۔
تاہم ریاست جموں کشمیر کو حاصل خصوصی حیثیت دفعہ 35اے اور دفعہ 370کے مطابق انکے بچے ریاست جموں کشمیر کے باشندے قرار نہیں دئے جا سکتے۔
رینو نندا کے وکیل نے ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’جموں کشمیر میں دفعہ 35اے کی وجہ سے عورتوں کے حقوق صلب ہوتے ہیں۔‘‘
انکا کہنا تھا کہ اگر ایک مرد غیر ریاستی خاتون سے شادی کرتا ہے تو اسکے بچوں کو ریاست کی شہریت حاصل ہوتی ہے۔ تاہم ایک خاتون اگر ریاست سے باہر شادی کرتی ہے تو اسکے بچوں کو ریاست جموں کشمیر کی شہریت حاصل نہیں ہوتی۔
انکا کہنا تھا کہ اگر اس کیس میں انکی جیت ہوتی ہے تو یہ صرف رینو نندا کی نہیں بلکہ پورے ملک کی جیت ہوگی۔
قابل ذکر ہے کہ عدالت عظمیٰ میں پہلے ہی دفعہ 35اے اور 370کو منسوخ کرنے کی کئی عرضیاں دائر کی گئی ہیں جن کی سماعت عنقریب ہونے والی ہے۔