ETV Bharat / state

جموں کشمیر: بچوں کو شہریت دلانے کے حق میں ہائی کورٹ میں عرضی دائر - Art370

ریاستی ہائی کورٹ میں جموں کی ایک خاتون نے اپنے بچوں کو ریاست جموں کشمیر کی شہریت دلانے کیلئے جموں ہائی کورٹ میں ایک عرضی دائر کی ہے۔

jammu high court
author img

By

Published : Apr 25, 2019, 8:17 PM IST

واضح رہے کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا ایسا معاملہ ہے۔

جموں یونیورسٹی میں بحیثیت پروفیسر کام کار رہی رینو نندا کی شادی 1994 میں ریاست مغربی بنگال میں ہوئی اور1998 میں ان کا طلاق ہوا۔

اس دوران رینو نندا نے جموں میں ہی اپنے دو بچوں - مادھو کمار اور کیسو کمار - کی پرورش کی۔

تاہم ریاست جموں کشمیر کو حاصل خصوصی حیثیت دفعہ 35اے اور دفعہ 370کے مطابق انکے بچے ریاست جموں کشمیر کے باشندے قرار نہیں دئے جا سکتے۔

جموں کشمیر: بچوں کو شہریت دلانے کے حق میں ہائی کورٹ میں عرضی دائر

رینو نندا کے وکیل نے ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’جموں کشمیر میں دفعہ 35اے کی وجہ سے عورتوں کے حقوق صلب ہوتے ہیں۔‘‘

انکا کہنا تھا کہ اگر ایک مرد غیر ریاستی خاتون سے شادی کرتا ہے تو اسکے بچوں کو ریاست کی شہریت حاصل ہوتی ہے۔ تاہم ایک خاتون اگر ریاست سے باہر شادی کرتی ہے تو اسکے بچوں کو ریاست جموں کشمیر کی شہریت حاصل نہیں ہوتی۔

انکا کہنا تھا کہ اگر اس کیس میں انکی جیت ہوتی ہے تو یہ صرف رینو نندا کی نہیں بلکہ پورے ملک کی جیت ہوگی۔

قابل ذکر ہے کہ عدالت عظمیٰ میں پہلے ہی دفعہ 35اے اور 370کو منسوخ کرنے کی کئی عرضیاں دائر کی گئی ہیں جن کی سماعت عنقریب ہونے والی ہے۔

واضح رہے کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا ایسا معاملہ ہے۔

جموں یونیورسٹی میں بحیثیت پروفیسر کام کار رہی رینو نندا کی شادی 1994 میں ریاست مغربی بنگال میں ہوئی اور1998 میں ان کا طلاق ہوا۔

اس دوران رینو نندا نے جموں میں ہی اپنے دو بچوں - مادھو کمار اور کیسو کمار - کی پرورش کی۔

تاہم ریاست جموں کشمیر کو حاصل خصوصی حیثیت دفعہ 35اے اور دفعہ 370کے مطابق انکے بچے ریاست جموں کشمیر کے باشندے قرار نہیں دئے جا سکتے۔

جموں کشمیر: بچوں کو شہریت دلانے کے حق میں ہائی کورٹ میں عرضی دائر

رینو نندا کے وکیل نے ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’جموں کشمیر میں دفعہ 35اے کی وجہ سے عورتوں کے حقوق صلب ہوتے ہیں۔‘‘

انکا کہنا تھا کہ اگر ایک مرد غیر ریاستی خاتون سے شادی کرتا ہے تو اسکے بچوں کو ریاست کی شہریت حاصل ہوتی ہے۔ تاہم ایک خاتون اگر ریاست سے باہر شادی کرتی ہے تو اسکے بچوں کو ریاست جموں کشمیر کی شہریت حاصل نہیں ہوتی۔

انکا کہنا تھا کہ اگر اس کیس میں انکی جیت ہوتی ہے تو یہ صرف رینو نندا کی نہیں بلکہ پورے ملک کی جیت ہوگی۔

قابل ذکر ہے کہ عدالت عظمیٰ میں پہلے ہی دفعہ 35اے اور 370کو منسوخ کرنے کی کئی عرضیاں دائر کی گئی ہیں جن کی سماعت عنقریب ہونے والی ہے۔

Intro:جموں ہائ کورٹ میں اپنی نوعیت کا پہلا ایسا کیس جس میں درخواست گزار عورت ریاست بنگال میں شادی کرکے بچوں کو ریاست جموں کشمیر کی باسندگی کے حق کی سرٹیفکیٹ مانگتی ہے ۔

جموں یونورسٹی سئبہ تعلیم میں سئنیر پروفیسر رینو نندا نے 1994 میں ریاست مغربی بنگال میں شادی کی تھی اور بعد میں 1998 میں ان کا طلاق ہوا جس کے باعث پریفسر رینو نندا نے جموں میں ہی اپنے دو بچوں مادھو کمار اور کیسو کمار کی پرورش کی لیکن آج تک وہ ریاست جموں کشمیر کی باسندہ نہیں بن سکے ۔

رینو نندا کے وکیل انکورشرما نے ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات کرتے ہوے کہا کہ جموں کشمیر میں دفعہ 35اے کی وجہ سے عورتوں کے حقوق سلب ہوتے ہیں اور ان کو اپنا حق نہیں ملتا ہیں خاصکر تب جب وہ بیرونی ریاست شادی کرتے ہیں یہ سب نا انصافی ریاست جموں میں موجودہ قانون دفعہ 35اے کی وجہ سے ہوتا ہے جس کو ہم سپریم کورٹ میں بھی چیلنج کرتے ہیں اور مہلک قانون سے زیادہ تر عورتےمتاثر ہوتی ہیں اگر ہم رینو نندا کا کیس جیت گئے تو یہ پورے ملک کے لئے جیت ہوگی

واضع رہے ریاست جموں کشمیر ہندوستان کی پہلی ریاست ہیں جس کو خصوصی پوزیشن ملک میں حاصل ہیں خاصکر ریاست کی باسندگی جوکہ آج کل پورے ملک میں موضع بحث بن چکا ہے چند قومی جماعتیں اس کو ہٹانے کی مانگ کررہے ہیں جبکہ علاقائی جماعتیں اس کو اور مضبوط کرنے کی مانگ کر رہے ہیں




Body:جموں ہائ کورٹ میں اپنی نوعیت کا پہلا ایسا کیس جس میں درخواست گزار عورت ریاست بنگال میں شادی کرکے بچوں کو ریاست جموں کشمیر کی باسندگی کے حق کی سرٹیفکیٹ مانگتی ہے ۔

جموں یونورسٹی سئبہ تعلیم میں سئنیر پروفیسر رینو نندا نے 1994 میں ریاست مغربی بنگال میں شادی کی تھی اور بعد میں 1998 میں ان کا طلاق ہوا جس کے باعث پریفسر رینو نندا نے جموں میں ہی اپنے دو بچوں مادھو کمار اور کیسو کمار کی پرورش کی لیکن آج تک وہ ریاست جموں کشمیر کی باسندہ نہیں بن سکے ۔

رینو نندا کے وکیل انکورشرما نے ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات کرتے ہوے کہا کہ جموں کشمیر میں دفعہ 35اے کی وجہ سے عورتوں کے حقوق سلب ہوتے ہیں اور ان کو اپنا حق نہیں ملتا ہیں خاصکر تب جب وہ بیرونی ریاست شادی کرتے ہیں یہ سب نا انصافی ریاست جموں میں موجودہ قانون دفعہ 35اے کی وجہ سے ہوتا ہے جس کو ہم سپریم کورٹ میں بھی چیلنج کرتے ہیں اور مہلک قانون سے زیادہ تر عورتےمتاثر ہوتی ہیں اگر ہم رینو نندا کا کیس جیت گئے تو یہ پورے ملک کے لئے جیت ہوگی

واضع رہے ریاست جموں کشمیر ہندوستان کی پہلی ریاست ہیں جس کو خصوصی پوزیشن ملک میں حاصل ہیں خاصکر ریاست کی باسندگی جوکہ آج کل پورے ملک میں موضع بحث بن چکا ہے چند قومی جماعتیں اس کو ہٹانے کی مانگ کررہے ہیں جبکہ علاقائی جماعتیں اس کو اور مضبوط کرنے کی مانگ کر رہے ہیں




Conclusion:جموں ہائ کورٹ میں اپنی نوعیت کا پہلا ایسا کیس جس میں درخواست گزار عورت ریاست بنگال میں شادی کرکے بچوں کو ریاست جموں کشمیر کی باسندگی کے حق کی سرٹیفکیٹ مانگتی ہے ۔

جموں یونورسٹی سئبہ تعلیم میں سئنیر پروفیسر رینو نندا نے 1994 میں ریاست مغربی بنگال میں شادی کی تھی اور بعد میں 1998 میں ان کا طلاق ہوا جس کے باعث پریفسر رینو نندا نے جموں میں ہی اپنے دو بچوں مادھو کمار اور کیسو کمار کی پرورش کی لیکن آج تک وہ ریاست جموں کشمیر کی باسندہ نہیں بن سکے ۔

رینو نندا کے وکیل انکورشرما نے ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات کرتے ہوے کہا کہ جموں کشمیر میں دفعہ 35اے کی وجہ سے عورتوں کے حقوق سلب ہوتے ہیں اور ان کو اپنا حق نہیں ملتا ہیں خاصکر تب جب وہ بیرونی ریاست شادی کرتے ہیں یہ سب نا انصافی ریاست جموں میں موجودہ قانون دفعہ 35اے کی وجہ سے ہوتا ہے جس کو ہم سپریم کورٹ میں بھی چیلنج کرتے ہیں اور مہلک قانون سے زیادہ تر عورتےمتاثر ہوتی ہیں اگر ہم رینو نندا کا کیس جیت گئے تو یہ پورے ملک کے لئے جیت ہوگی

واضع رہے ریاست جموں کشمیر ہندوستان کی پہلی ریاست ہیں جس کو خصوصی پوزیشن ملک میں حاصل ہیں خاصکر ریاست کی باسندگی جوکہ آج کل پورے ملک میں موضع بحث بن چکا ہے چند قومی جماعتیں اس کو ہٹانے کی مانگ کررہے ہیں جبکہ علاقائی جماعتیں اس کو اور مضبوط کرنے کی مانگ کر رہے ہیں

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.