آخر یہ حدبندی ہوتی کیا ہے اور اس کو کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟ آئیے جانے کی کوشش کرتے ہیں۔
- حدبندی کیا ہے؟
حدبندی کے تحت کسی بھی ریاست یا مرکزی زیر انتظام علاقے میں اسمبلی نشستوں کی تعداد میں کمی بیشی کی جاتی ہے جس کے بعد نئے حلقوں کی حدیں مقرر کی جاتی ہیں۔ جموں و کشمیرکی نئی حدبندی پو ڈوچری یا دہلی کی طرز پر ممکن ہے کیوں کی پانچ اگست سے جموں و کشمیر مرکز کے زیر انتظام آ چکا ہے۔ واضح رہے کہ 2014 میں آندھرا پردیش اور تلنگانہ کے تقسیم کے بعد حدبندی کی گئی تھی۔
- جموں و کشمیر کی حدبندی کیسے کی جائے گی؟
حدبندی کے بعد جموں و کشمیر کی اسمبلی نشستیں 107 سے بڑھاکر 114 کی جائیں گی۔ ان 114 نشستوں میں سے 24 نشستیں پاکستان کے زیر انتظام علاقے کیلئے مخصوص ہیں اور باقی 90 سیٹوں پر اسمبلی انتخابات ہونے ہیں۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ ان 90 نشستوں میں سب سے زیادہ حصہ جموں کو تفویض کیے جانے کے قوی امکانات ہیں۔ الیکشن کمیشن کے مطابق جموں و کشمیر کی حدبندی 2011 کی مردم شماری کو بنیاد بناکر اور عوامی نمائندگی ایکٹ 1950 (جس میں وقتاً فوقتاً ترمیم کی جاتی ہے) کے تحت عمل میں لائی جائے گی۔
- کون کرے گا حدبندی؟
حدبندی کی کارروائی حدبندی کمیشن کی نگرانی میں ہوتی ہے اور اس کمیشن کے فیصلے کے خلاف ملک کی کسی بھی عدالت میں عرضی دائر نہیں کی جا سکتی۔ حدبندی کمیشن کا فیصلہ پتھر پر لکیر جیسا ہوتا ہے۔ اس تین رکنی کمیشن میں عدالت عظمیٰ کا سابق جج بطور صدر ہوتا ہے جب کی چیف الیکشن کمشنر اور اسٹیٹ الیکشن کمشنر بطور ممبر ہوتے ہیں۔ حدبندی کمیشن کا فیصلہ بھارتی صدر کی جانب سے مقررہ تاریخ پر لائحہ عمل مرتب کیا جاتا ہے۔
- حدبندی سے کس کو فائدہ ہوگا؟
ماہرین اور مخالف جماعتوں کے لیڈران کا ماننا ہے کہ حدبندی بھارتیہ جنتا پارٹی اپنے مفاد کے لیے کروا رہی ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ بی جے پی جموں و کشمیر کو مذہب کی بنیاد پر بانٹ کر اپنے ووٹ بینک میں اضافہ کرنا چاہتی ہے۔ وہیں بی جے پی کا کہنا ہے کہ جموں و کشمیر میں کافی عرصے سے حدبندی نہیں ہوئی ہے اور اس دوران علاقے کی آبادی میں بھی کافی اضافہ ہوا ہے اس لیے مرکزی حکومت کو حدبندی کرنے کی ضرورت آن پڑی۔
- کشمیر میں اعتراض
کشمیر میں حد بندی کے بارے میں دو نظریات ہیں۔ جو لوگ الیکشن سیاست کے بجائے علیحدگی پسند ہیں، وہ حد بندی سے متعلق کسی بھی بحث میں نہیں الجھتے۔ الیکشن میں حصہ لینے والی جماعتوں کا نظریہ یہ ہے کہ نئی حد بندی سے اسمبلی میں سیٹوں کا تناسب تبدیل ہوگا اور مسلم اکثریتی کشمیر کے مقابلے میں جموں صوبے کو سبقت حاصل ہوگی۔ سابق اسمبلی میں کشمیر سے46 اراکین اسمبلی منتخب ہوتے تھے جبکہ جموں صوبے سے 37 ارکان کا انتخاب ہوتا تھا۔