معروف مصنفہ ڈاکٹر نائلہ علی خان نے ملک کی مختلف ریاستوں کے جیلوں میں مقید 2 سو کشمیری نوجوانوں اور ان کے اہل خانہ کی حالت زار پر اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان میں سے بیشتر اپنے کنبوں کے واحد کفیل تھے۔
انہوں نے کہا کہ مقید نوجوانوں کے افراد خانہ کے پاس اپنے لخت ہائے جگر کی ملاقات کے لئے بیرون وادی سفر کرنے کے لئے زاد راہ تک نہیں ہے۔
نائلہ علی خان جموں وکشمیر کے قدآور سیاسی لیڈر مرحوم شیخ محمد عبداللہ کے خانوادے کی چشم و چراغ ہیں۔
اوکلاہما یونیورسٹی امریکہ جیسی عالمی شہرت یافتہ دانشگاہوں میں درس و تدریس کے فرائض انجام دینے کے علاوہ انہوں نے کئی کتابیں تصنیف کی ہیں۔
موصوف مصنفہ نے اپنے تویٹر پوسٹ میں کہا: 'میں جموں کشمیر کے سابق وزرائے اعلیٰ، سابق قانون سازوں اور ایک سابق آئی اے ایس افسر کی پی ایس اے کے تحت حراست کی سخت مذمت کرتی ہوں تاہم میں ان دو سو کشمیری نوجوانوں، جو پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) کے تحت بند ہیں، کو بھی نہیں بھول سکتی ہوں، جو وادی کے باہر جیلوں میں مقید ہیں'۔
بیرون وادی کے جیلوں میں مقید دو سو کشمیری نوجوانوں اور ان کے اہل خانہ کی حالت زار پر اظہار افسوس کرتے ہوئے نائلہ نے کہا:'ان محبوس نوجوانوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو اپنے کنبوں کے واحد کفیل ہیں، ان کے اہل خانہ انتہائی کسمپرسی کی حالت میں ہیں، ان کے پاس اتر پردیش جہاں ان کے بچے بند ہیں، جیسی ریاستوں کا سفر کرنے کے لئے وسائل نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ لوگ (محبوس کشمیریوں کے اہل خانہ) اپنے لخت ہائے جگر کے نامعلوم مستقبل کے بارے میں فکر مندی اور تذبذب کے بھنور میں پھنس گئے ہیں۔
ذرائع کے مطابق وادی کے باہر جیلوں میں مقید کئی نوجوانوں کے اہل خانہ اپنے لخت ہائے جگر کی ملاقات کو جانے کے لئے جہاں وسائل نہ ہونے کی وجہ سے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہوئے ہیں وہیں کئی محبوس نوجوانوں کے والدین مختلف نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا ہوئے ہیں۔
محبوس نوجوانوں کے والدین کا کہنا ہے کہ اپنے لخت ہائے جگر کی تلاش و انتظار میں ہماری تمام متاع حیات لٹ گئی اب صحت ہے نہ پیسہ ہے کہ دور دراز ریاستوں کا سفر کرکے ان کے ساتھ ملاقی ہوسکیں۔
موصوف مصنفہ نے سوالیہ انداز میں کہا کہ کیا ان محبوس کشمیریوں پر باقاعدہ کیس درج کیا گیا ہے یا انہیں محض شک کی بنیادوں پر ہی بند رکھا گیا ہے۔ نائلہ علی کا کہنا ہے کہ حکام نے ان لوگوں، جو سب کے سب سیاسی کارکن نہیں ہیں، ان کو غیر قانونی طور پربند کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک جمہوری طرز حکومت میں معاشرے میں پنپ رہے سیاسی ارتقا کو طاقت کے بل پر دبانا بہت بڑی غلطی ہے۔
قابل ذکر ہے کہ جموں وکشمیر انتظامیہ نے حال ہی میں جموں وکشمیر کے دو سابق وزرائے اعلیٰ عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی پر پبلک سیفٹی ایکٹ عائد کیا بعد ازاں سابق آئی اے ایس ٹاپر اور جموں وکشمیر پیپلز موومنٹ کے چیئرمین ڈاکٹر شاہ فیصل پر بھی پی ایس اے عائد کیا گیا اب تک مجموعی طور پر نو سیاسی لیڈروں پر پی ایس اے عائد کیا گیا ہے۔
علاوہ ازیں سال گزشتہ پانچ اگست کے بعد کئی نوجوانوں کی گرفتاری عمل میں لائی گئی جو ملک کی مختلف ریاستوں کے جیلوں میں مقید ہیں۔