ETV Bharat / state

زیبہ بیگم کے جذبے کو سلام

دنیا میں ماؤں کے ساتھ درہیش ظلم و ستم کی داستاں  محدود نہیں ہے۔ نا مساعد حالات، قدرتی آفات، غربت اور گھریلو تشدد کا شکار ہونے والی لاکھوں مائیں ایسی ہیں جن کا درد سننے اور سمجھنے والا بھی کوئی نہیں ہوتا ہے۔

زیبہ بیگم کے جزبے کو سلام
زیبہ بیگم کے جزبے کو سلام
author img

By

Published : May 11, 2020, 5:01 PM IST

ہر برس دس مئی کو عالمی یوم مادر منایا جاتا ہے تاکہ ماں کی اہمیت و عظمت کو عالمی سطح پر اجاگر کیا جائے اور دنیا میں ایک ماں کے تئیں ہمدردی کا جذبہ اور اس کا تقدس برقرار رہے۔ تاہم دور حاضر میں جب جائزہ لیا جائے تو زمینی سطح پر یہ دن منانے کا مقصد صرف ایک رسم کی مانند نظر آرہا ہے۔



تاہم وادی کشمیر میں ایسی مائیں بھی ہیں جنہوں نے ہمت اور بلند حوصلوں سے ہر مصیبتوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور زندگی کے سفر میں آگے بڑھتی گئیں۔

زیبہ بیگم کے جزبے کو سلام
ایسی ہی ماؤں میں شمار ہوتی ہے جنوبی کشمیر کے ضلع اننت ناگ کے بٹنگو علاقہ سے تعلق رکھنے والی 70 سالہ زیبہ بیگم جو ضلع اننت ناگ کے بٹنگو علاقہ میں اپنی ایک معذور بیٹی کے ساتھ دو کمروں پر مشتمل ایک مکان میں کسم پرسی کی حالت میں اپنا گزر بسر کر رہی ہیں۔دراصل زیبہ بیگم کے شوہر سنہ دوہزار دس میں (سرطان) کینسر کا شکار ہوکر لمبی علالت کے بعد فوت ہو گئے تھے۔ زیبہ بیگم اپنے شوہر کی موت کے صدمے سے ابھی باہر نہیں آئی تھیں تو شوہر کی موت کے صرف تین ماہ بعد ان کا جوان بیٹا مشتاق احمد بھی کینسر کا شکار ہو کر فوت ہوگیا۔زیبہ کے مطابق غربت کی وجہ سے ان کے فرزند مشتاق احمد نے آٹھویں جماعت میں ہی پڑھائی چھوڑ دی تھی جس کے بعد وہ ایک مقامی لوہار کی دکان پر کام کرکے اپنے گھر کی کفالت کر رہے تھے۔شوہر اور بیٹے کی موت کے بعد زیبہ بیگم کے گھر میں کوئی کمانے والا نہیں رہا۔ شوہر اور بیٹا محنت مزدوری کرکے دو وقت کی روٹی کا انتظام کرتے تھے۔تاہم اُن کی موت کے بعد گھر کا سارا بوجھ زیبہ بیگم کے کاندھوں پر آگیا۔زیبہ بیگم کی ایک بیٹی بھی ہے۔ تیس سالہ لطیفہ جان سنہ دو ہزار دو میں ایک سڑک حادثہ کی وجہ سے زندگی بھر کے لئے معذور ہو گئی۔ حالانکہ چنڈی گڑھ ہسپتال میں سرجری ہونے کے با وجود بھی لطیفہ جان ٹھیک نہیں ہو پائی ہے۔

زیبہ کے مطابق ان کے شوہر اور فرزند نے لطیفہ جان کے بہتر علاج و معالجہ کے خاطر دوگنی محنت مزدوری کی تھی تاہم بدقسمتی سے وہ ٹھیک نہ ہو سکی۔

بیٹے اور شوہر کی موت کے بعد زیبہ بیگم کافی وقت تک صدمہ سے باہر نہیں آئیں۔ مقامی لوگ اور صاحب ثروت حضرات زیبہ بیگم کی مدد کے لئے آگے آئےجس کی بدولت زیبہ بیگم کے خاندان کا چراغ روشن رہا۔

زیبہ بیگم آہستہ آہستہ اپنے گھر کی ذمہ داریوں کو سمجھنے لگیں...جس کے بعد زیبہ نے دوسروں کے گھر میں کام کرنا شروع کیا اور محنت مزدوری کرکے زیبہ بیگم اٹھارہ برس سے بستر علالت میں پڑی اپنی معذور بیٹی کی پرورش کر رہی ہیں۔

مشکل دور سے گزرنے کے دوران زیبہ خود امراض قلب میں مبتلا ہوئی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں دل کی بیماری کے لیے درکار ادویات کے لئے ہر ماہ ہزاروں کی رقم کا انتظام کرنا پڑتا ہے۔ ڈاکٹروں نے انہیں دل کا وال یعنی(پیس میکر) ڈالنے کی صلاح دی ہے جس کےلیے انہیں قریب ڈھیڑ لاکھ کی رقم درکار ہے۔

زیبہ کا کہنا ہے کہ سرکار کی جانب سے انہیں کسی بھی طرح کی امداد فراہم نہیں کی گئی...کئی بار مطالبات دہرانے کے بعد بھی کوئی سہولیت دستیاب نہیں کی گئی۔

محنت، صبر اور بلند حوصلوں کی وجہ سے آج زیبہ بیگم کے گھر کی حالت قدر بہتر ہے۔ مقامی لوگ بھی زیبہ بیگم کے ہمت کی داد دیتے ہیں۔ گھر کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے ساتھ ساتھ زیبہ بیگم اپنی معذور بیٹی کی خدمت میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتی ہیں ۔ ایک ماں کے ممتا اور اپنے اولاد کے تیئں اظہار ہمدردی کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہو سکتی ہے۔

ہر برس دس مئی کو عالمی یوم مادر منایا جاتا ہے تاکہ ماں کی اہمیت و عظمت کو عالمی سطح پر اجاگر کیا جائے اور دنیا میں ایک ماں کے تئیں ہمدردی کا جذبہ اور اس کا تقدس برقرار رہے۔ تاہم دور حاضر میں جب جائزہ لیا جائے تو زمینی سطح پر یہ دن منانے کا مقصد صرف ایک رسم کی مانند نظر آرہا ہے۔



تاہم وادی کشمیر میں ایسی مائیں بھی ہیں جنہوں نے ہمت اور بلند حوصلوں سے ہر مصیبتوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور زندگی کے سفر میں آگے بڑھتی گئیں۔

زیبہ بیگم کے جزبے کو سلام
ایسی ہی ماؤں میں شمار ہوتی ہے جنوبی کشمیر کے ضلع اننت ناگ کے بٹنگو علاقہ سے تعلق رکھنے والی 70 سالہ زیبہ بیگم جو ضلع اننت ناگ کے بٹنگو علاقہ میں اپنی ایک معذور بیٹی کے ساتھ دو کمروں پر مشتمل ایک مکان میں کسم پرسی کی حالت میں اپنا گزر بسر کر رہی ہیں۔دراصل زیبہ بیگم کے شوہر سنہ دوہزار دس میں (سرطان) کینسر کا شکار ہوکر لمبی علالت کے بعد فوت ہو گئے تھے۔ زیبہ بیگم اپنے شوہر کی موت کے صدمے سے ابھی باہر نہیں آئی تھیں تو شوہر کی موت کے صرف تین ماہ بعد ان کا جوان بیٹا مشتاق احمد بھی کینسر کا شکار ہو کر فوت ہوگیا۔زیبہ کے مطابق غربت کی وجہ سے ان کے فرزند مشتاق احمد نے آٹھویں جماعت میں ہی پڑھائی چھوڑ دی تھی جس کے بعد وہ ایک مقامی لوہار کی دکان پر کام کرکے اپنے گھر کی کفالت کر رہے تھے۔شوہر اور بیٹے کی موت کے بعد زیبہ بیگم کے گھر میں کوئی کمانے والا نہیں رہا۔ شوہر اور بیٹا محنت مزدوری کرکے دو وقت کی روٹی کا انتظام کرتے تھے۔تاہم اُن کی موت کے بعد گھر کا سارا بوجھ زیبہ بیگم کے کاندھوں پر آگیا۔زیبہ بیگم کی ایک بیٹی بھی ہے۔ تیس سالہ لطیفہ جان سنہ دو ہزار دو میں ایک سڑک حادثہ کی وجہ سے زندگی بھر کے لئے معذور ہو گئی۔ حالانکہ چنڈی گڑھ ہسپتال میں سرجری ہونے کے با وجود بھی لطیفہ جان ٹھیک نہیں ہو پائی ہے۔

زیبہ کے مطابق ان کے شوہر اور فرزند نے لطیفہ جان کے بہتر علاج و معالجہ کے خاطر دوگنی محنت مزدوری کی تھی تاہم بدقسمتی سے وہ ٹھیک نہ ہو سکی۔

بیٹے اور شوہر کی موت کے بعد زیبہ بیگم کافی وقت تک صدمہ سے باہر نہیں آئیں۔ مقامی لوگ اور صاحب ثروت حضرات زیبہ بیگم کی مدد کے لئے آگے آئےجس کی بدولت زیبہ بیگم کے خاندان کا چراغ روشن رہا۔

زیبہ بیگم آہستہ آہستہ اپنے گھر کی ذمہ داریوں کو سمجھنے لگیں...جس کے بعد زیبہ نے دوسروں کے گھر میں کام کرنا شروع کیا اور محنت مزدوری کرکے زیبہ بیگم اٹھارہ برس سے بستر علالت میں پڑی اپنی معذور بیٹی کی پرورش کر رہی ہیں۔

مشکل دور سے گزرنے کے دوران زیبہ خود امراض قلب میں مبتلا ہوئی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں دل کی بیماری کے لیے درکار ادویات کے لئے ہر ماہ ہزاروں کی رقم کا انتظام کرنا پڑتا ہے۔ ڈاکٹروں نے انہیں دل کا وال یعنی(پیس میکر) ڈالنے کی صلاح دی ہے جس کےلیے انہیں قریب ڈھیڑ لاکھ کی رقم درکار ہے۔

زیبہ کا کہنا ہے کہ سرکار کی جانب سے انہیں کسی بھی طرح کی امداد فراہم نہیں کی گئی...کئی بار مطالبات دہرانے کے بعد بھی کوئی سہولیت دستیاب نہیں کی گئی۔

محنت، صبر اور بلند حوصلوں کی وجہ سے آج زیبہ بیگم کے گھر کی حالت قدر بہتر ہے۔ مقامی لوگ بھی زیبہ بیگم کے ہمت کی داد دیتے ہیں۔ گھر کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے ساتھ ساتھ زیبہ بیگم اپنی معذور بیٹی کی خدمت میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتی ہیں ۔ ایک ماں کے ممتا اور اپنے اولاد کے تیئں اظہار ہمدردی کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہو سکتی ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.