ہر برس دس مئی کو عالمی یوم مادر منایا جاتا ہے تاکہ ماں کی اہمیت و عظمت کو عالمی سطح پر اجاگر کیا جائے اور دنیا میں ایک ماں کے تئیں ہمدردی کا جذبہ اور اس کا تقدس برقرار رہے۔ تاہم دور حاضر میں جب جائزہ لیا جائے تو زمینی سطح پر یہ دن منانے کا مقصد صرف ایک رسم کی مانند نظر آرہا ہے۔
تاہم وادی کشمیر میں ایسی مائیں بھی ہیں جنہوں نے ہمت اور بلند حوصلوں سے ہر مصیبتوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور زندگی کے سفر میں آگے بڑھتی گئیں۔
زیبہ کے مطابق ان کے شوہر اور فرزند نے لطیفہ جان کے بہتر علاج و معالجہ کے خاطر دوگنی محنت مزدوری کی تھی تاہم بدقسمتی سے وہ ٹھیک نہ ہو سکی۔
بیٹے اور شوہر کی موت کے بعد زیبہ بیگم کافی وقت تک صدمہ سے باہر نہیں آئیں۔ مقامی لوگ اور صاحب ثروت حضرات زیبہ بیگم کی مدد کے لئے آگے آئےجس کی بدولت زیبہ بیگم کے خاندان کا چراغ روشن رہا۔
زیبہ بیگم آہستہ آہستہ اپنے گھر کی ذمہ داریوں کو سمجھنے لگیں...جس کے بعد زیبہ نے دوسروں کے گھر میں کام کرنا شروع کیا اور محنت مزدوری کرکے زیبہ بیگم اٹھارہ برس سے بستر علالت میں پڑی اپنی معذور بیٹی کی پرورش کر رہی ہیں۔
مشکل دور سے گزرنے کے دوران زیبہ خود امراض قلب میں مبتلا ہوئی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں دل کی بیماری کے لیے درکار ادویات کے لئے ہر ماہ ہزاروں کی رقم کا انتظام کرنا پڑتا ہے۔ ڈاکٹروں نے انہیں دل کا وال یعنی(پیس میکر) ڈالنے کی صلاح دی ہے جس کےلیے انہیں قریب ڈھیڑ لاکھ کی رقم درکار ہے۔
زیبہ کا کہنا ہے کہ سرکار کی جانب سے انہیں کسی بھی طرح کی امداد فراہم نہیں کی گئی...کئی بار مطالبات دہرانے کے بعد بھی کوئی سہولیت دستیاب نہیں کی گئی۔
محنت، صبر اور بلند حوصلوں کی وجہ سے آج زیبہ بیگم کے گھر کی حالت قدر بہتر ہے۔ مقامی لوگ بھی زیبہ بیگم کے ہمت کی داد دیتے ہیں۔ گھر کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے ساتھ ساتھ زیبہ بیگم اپنی معذور بیٹی کی خدمت میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتی ہیں ۔ ایک ماں کے ممتا اور اپنے اولاد کے تیئں اظہار ہمدردی کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہو سکتی ہے۔