ETV Bharat / state

کتنا بوجھ اٹھائیں گے یہ اسکولی بچے؟ - بچوں کے پر رونق نظارے بھی دیکھنے کو مل رہے ہیں

سرمائی تعطیلات کے بعد اسکول بچوں کی آمد سے جہاں پھر چہک اٹھے ہیں وہیں صبح سویرے رنگ برنگ وردی پہنے اپنے اپنے اسکولوں کی اور جاتے ہوئے بچوں کے پر رونق نظارے بھی دیکھنے کو مل رہے ہیں ۔

کتنا بوجھ اٹھائیں گے یہ اسکولی بچے؟
کتنا بوجھ اٹھائیں گے یہ اسکولی بچے؟
author img

By

Published : Mar 3, 2020, 10:16 PM IST

لیکن اس کے ساتھ ساتھ کمسن طلباء بستوں کےبوجھ تلے دبتے ہوئےبھی دکھائی دے رہے ہیں۔

کتنا بوجھ اٹھائیں گے یہ اسکولی بچے؟

جی ہاں جموں و کشمیر میں گورنر انتظامیہ کے بعد اب ایل جی انتظامیہ بھی ان نونہالوں کے کاندھوں کا بوجھ کم کرنے میں ناکام نظر آرہی ہے۔

اسکولی بچوں کے بستوں سے متعلق قانون اسکول ایکٹ 2006 کی رو سے اسکولی بچوں پر ان کے وزن کا صرف دس فیصد بوجھ بیگ کی صورت میں ڈالا جاسکتا ہےلیکن یہاں حالت اس کے برعکس ہے ۔بچے کے وزن سے بھی زیادہ اس کے کتابوں کا بھاری بستہ لادا جاتا ہےاور اس حوالے سے کوئی کاروائی عمل میں نہیں لائی جارہی ہے۔

اسکولی بستوں کا سنجیدہ نوٹس لیتے ہوئے ہائی کورٹ نے محکم تعلیم کو پٹھکار لگائی تھی جس کے بعد محکمہ تعلیم کی جانب سے باضابط ایک آرڈر بھی جاری کیا گیا تھا ۔اگست 2017میں جاری کیے گیے اس آڈر میں جموں و کشمیر سرکار نے نے اسکولی بچوں کے بستوں کابوجھ کم کرنے کے لیے ماہرین کی ایک چار رکنی کمیٹی بھی تشکیل دی تھی۔ اور اس تعلق سےماہرین کی کمیٹی نے اپنی سفارشات حکومت کو سونپ بھی دے دی تھی۔

ادھر محکمہ تعلیم کے زمہ داران کا کہنا ہے کہ مہارین کی تجاویز ہر منبی رپورٹ سرکار کو تو بھیج دی گئی ہے لیکن اس پر عملی طور کاروائی کیوں نہیں ہورہی ہے وہ یہ کہنے سے قاصرہیں۔

ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ معصوم بچوں کو بھاری بھرکم بستوں اور ضرورت سے زیادہ بوجھ سے نہ صرف چوں کی نشونما پر منفی اثرت مرتب ہوتے ہیں ۔ بلکہ کم عمری میں ان کے کمر میں بھی تکلیف ہوتی ہے وہیں اس سے کمر ٹیڑھا ہونے کا بھی اہتمال رہتا ہے۔

تعلیمی ماہرین کی تشکیل شدہ کمیٹی کے ممبران کا کہنا ہے۔ اب اس رپورٹ کو 2سال کا عرصےبھی سونپے ہوئے گزر گیا ہے عمل درآمد کیوں نہیں ہورہا ہے ۔تجویز شدہ رپورٹ کا کیا ہوا انہیں بھی اس بارے میں کوئی علمیت نہیں ہے۔

واضح رہے اسکولی بچوں کے کمر توڑ بستوں کے معاملے کو لے کر ایک 21سالہ طالب علم نے سال 2016 کے اوائل میں ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا۔

لیکن اس کے ساتھ ساتھ کمسن طلباء بستوں کےبوجھ تلے دبتے ہوئےبھی دکھائی دے رہے ہیں۔

کتنا بوجھ اٹھائیں گے یہ اسکولی بچے؟

جی ہاں جموں و کشمیر میں گورنر انتظامیہ کے بعد اب ایل جی انتظامیہ بھی ان نونہالوں کے کاندھوں کا بوجھ کم کرنے میں ناکام نظر آرہی ہے۔

اسکولی بچوں کے بستوں سے متعلق قانون اسکول ایکٹ 2006 کی رو سے اسکولی بچوں پر ان کے وزن کا صرف دس فیصد بوجھ بیگ کی صورت میں ڈالا جاسکتا ہےلیکن یہاں حالت اس کے برعکس ہے ۔بچے کے وزن سے بھی زیادہ اس کے کتابوں کا بھاری بستہ لادا جاتا ہےاور اس حوالے سے کوئی کاروائی عمل میں نہیں لائی جارہی ہے۔

اسکولی بستوں کا سنجیدہ نوٹس لیتے ہوئے ہائی کورٹ نے محکم تعلیم کو پٹھکار لگائی تھی جس کے بعد محکمہ تعلیم کی جانب سے باضابط ایک آرڈر بھی جاری کیا گیا تھا ۔اگست 2017میں جاری کیے گیے اس آڈر میں جموں و کشمیر سرکار نے نے اسکولی بچوں کے بستوں کابوجھ کم کرنے کے لیے ماہرین کی ایک چار رکنی کمیٹی بھی تشکیل دی تھی۔ اور اس تعلق سےماہرین کی کمیٹی نے اپنی سفارشات حکومت کو سونپ بھی دے دی تھی۔

ادھر محکمہ تعلیم کے زمہ داران کا کہنا ہے کہ مہارین کی تجاویز ہر منبی رپورٹ سرکار کو تو بھیج دی گئی ہے لیکن اس پر عملی طور کاروائی کیوں نہیں ہورہی ہے وہ یہ کہنے سے قاصرہیں۔

ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ معصوم بچوں کو بھاری بھرکم بستوں اور ضرورت سے زیادہ بوجھ سے نہ صرف چوں کی نشونما پر منفی اثرت مرتب ہوتے ہیں ۔ بلکہ کم عمری میں ان کے کمر میں بھی تکلیف ہوتی ہے وہیں اس سے کمر ٹیڑھا ہونے کا بھی اہتمال رہتا ہے۔

تعلیمی ماہرین کی تشکیل شدہ کمیٹی کے ممبران کا کہنا ہے۔ اب اس رپورٹ کو 2سال کا عرصےبھی سونپے ہوئے گزر گیا ہے عمل درآمد کیوں نہیں ہورہا ہے ۔تجویز شدہ رپورٹ کا کیا ہوا انہیں بھی اس بارے میں کوئی علمیت نہیں ہے۔

واضح رہے اسکولی بچوں کے کمر توڑ بستوں کے معاملے کو لے کر ایک 21سالہ طالب علم نے سال 2016 کے اوائل میں ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.