ETV Bharat / state

دفعہ 370 کی منسوخی: صحافیوں کے خیالات

author img

By

Published : Aug 5, 2020, 5:39 PM IST

جہاں ایک طرف لوگ کیمرہ پر بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں وہیں دوسری طرف انتظامیہ کی جانب سے گزشتہ پانچ اگست کے بعد لیے گئے فیصلوں کی وجہ سے ان کے چہروں پر مایوسی اور الجھن صاف نظر آرہی تھی۔

دفعہ 370 کی منسوخی: صحافیوں کے خیالات
دفعہ 370 کی منسوخی: صحافیوں کے خیالات

وزیر اعظم نریندر مودی کی صدارت میں گزشتہ برس پانچ اگست کو جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت منسوخ کیے جانے کے فیصلے کے بعد بھارتیہ جنتا پارٹی اس فیصلے کی واہ واہی کرتی نہیں تھک رہی ہے۔ وہیں رواں برس اس فیصلے کی سالگرہ کے موقع پر تقریبات منعقد کرنے کا فیصلہ بھی لیا ہے۔ دوسری جانب ماہرین اور جموں و کشمیر اور لداخ کے باشندگان الجھن اور خوف میں مبتلا ہیں۔

ای ٹی وی بھارت نے جموں و کشمیر کے تمام خطے میں رہنے والے افراد سے اس سلسلے میں بات چیت کی اور ان ماہرین سے بھی بات کی جو دفعہ 370 اور 35 اے کے خاتمے کے بعد علاقے میں ہو رہی تبدیلیوں پر اپنی نظر رکھے ہوئے ہیں۔

ماہرین کیا کہتے ہیں؟

دفعہ 370 کی منسوخی: صحافیوں کے خیالات

جہاں ایک طرف لوگ کیمرہ پر بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں وہیں دوسری طرف انتظامیہ کی جانب سے گزشتہ پانچ اگست کے بعد لیے گئے فیصلوں کی وجہ سے ان کے چہروں پر مایوسی اور الجھن صاف نظر آرہی تھی۔ دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد جموں کشمیر اور لداخ کی صورتحال پر اپنی نظر رکھے ہوئے ماہرین نے بھی انتظامیہ کی جانب سے لیے گئے فیصلوں کو یکطرفہ اور موقع پر قرار دیا۔

سینئر صحافی اور سیاسی تجزیہ کار ریاض منصورکے لیے انتظامیہ کی جانب سے لیے جانے والے فیصلے یکطرفہ ہونے کے ساتھ ساتھ غیر جمہوری بھی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ "ایک جمہوری نظام میں قوانین بنائے جاتے ہیں، ان کی ترمیم بھی کی جاتی ہے اور جب ان قوانین کو عملایا جاتا ہے تو شہریوں کو ان قوانین پر عمل کرنا لازمی ہوتا ہے۔ قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں پر کارروائی بھی کی جاتی ہے۔ کشمیر کی بات کرے تو گزشتہ ایک برس سے کئی ایسے قوانین بنائے گئے جن کے بارے میں عوام شکایت کر رہی ہیں وہ ناراض ہیں۔ یہاں کوئی منتخب سرکار نہیں ہیں۔ دو تین افسران انتظامی کونسل کے نام پر جموں و کشمیر کے لیے فیصلے لے رہے ہیں۔ یہ جمہوریت کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے۔ اور اسی لیے ہم انتظامیہ کی جانب سے لیے گئے فیصلے جیسے ڈومیسائل، لینڈ بینکنگ، ملازمت یا اور کوئی دیگر فیصلے کو عوام کی تنقید کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔"

ان کا مزید کہنا تھا کہ " اگر فیصلے ایک مناسب راستہ اختیار کر کے لیے جاتے تو مجھے لگتا ہے عوام میں ایسا غصہ اور ناراضگی پیدا نہیں ہوتی۔ اگر جموں و کشمیر میں سیاسی نظام درہم برہم نہ ہوا ہوتا تو آج حالات مختلف ہوتے۔ مقامی سیاسی لیڈران نے بھی ایسے اہم فیصلے لینے سے قبل ہی اپنی رائے ظاہر کی ہوتی۔ جو تبدیلی ہم اس وقت دیکھ رہے ہیں وہ یکطرفہ ہے اور جمہوری نظام کے لیے ایک چیلنج بھی ہے۔"

راجستھان کی اندرونی سیاست کے بارے میں عدالت عظمی کے مشہدہ کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ " حالی میں عدالت نے کہا تھا کہ جمہور یت میں اختلاف رائے کی آواز کو بند نہیں کیا جا سکتا۔ انتظامیہ کی جانب سے لیے گئے فیصلے ان کے نقطہ نظر سے درست ہوسکتے ہیں لیکن عوام کی شرکت کے بنا جمہوری نظام نا مکمل ہے۔"

مسرور نے مرکزی دائرے کے سیاست دانوں کو گزشتہ 5 اگست کے بعد سے زیرحراست رکھنے پر بھی اپنے خیالات پیش کیے۔

ان کا کہنا تھا کہ "جن سیاست دانوں نے کشمیر میں بھارت کا پرچم لہرایا، انتخابات میں حصہ لیا اور عوام کے ووٹ بھی حاصل کیے انہیں قریب قریب ایک سال سے زیر حراست رکھا گیا ہے۔ اس وقت کشمیر میں کسی بھی قسم کی سیاست نہیں ہے۔ یہ یقینی طور پر جمہوری نظام نہیں ہے۔"

اسی طرح کے خیالات کی باز گشت کرتے ہوئے وادی کے ایک اور صحافی فردوس الہی کا کہنا ہے کہ یہ فیصلے کشمیریوں کی آواز کو دبانے کے لیے جا رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ "دفعہ 370، 35 اے کا خاتمہ اور اس کے بعد لیے گئے دیگر فیصلے اس وقت لیے گئے جب عوام اپنے گھروں میں محدود رہنے کے لیے مجبور تھی۔ یہ سراسر غلط ہے۔ فیصلے تب لیے جاتے ہیں جب ایک منتخب سرکار ہو اور ایک مناسب رشتے کو اختیار بنایا ہو ۔ مجھے لگتا ہے کی عوام کی آواز دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ وہ خوف کے سائے میں زندگی بسر کر رہے ہیں اور کوئی اس بارے میں بات کرنے کو تیار بھی نہیں۔"

ان کا مزید کہنا تھا کہ "عوام پر اس وقت فیصلے تھوپے جا رہے ہیں کیونکہ ہر طرف قدغن اور پابندیاں عائد ہیں۔ اور انتظامیہ جانتی ہے کہ اس وقت عوام احتجاج بھی نہیں کرے گی۔ میں نہیں سمجھتا کہ یہ صحیح وقت تھا کسی بھی قسم کا فیصلہ لینے کے لیے۔ ایک طرف لوگ عالمی وبا کورونا وائرس سے ہلاک ہو رہے ہیں اور دوسری جانب انتظامیہ فیصلوں پر فیصلہ لیے جا رہی ہے۔ یہ بربریت ہے۔"

انتظامیہ کی جانب سے لیے گئے فیصلوں کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے الہی کا کہنا تھا کہ " وہ جموں کشمیر میں تبدیلی لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دیہاتوں میں لوگوں کو ڈومیسائل سرٹیفکیٹ لینے کے لیے مجبور کیا جا رہا ہے۔ کیونکہ یہ سرٹیفکیٹ اب ملازمت، اعلی تعلیم وغیرہ کے لیے ضروری قرار دیے گئے ہیں۔ اگر ہم شہری علاقوں کی بات کریں تو جموں کشمیر اور لداخ ہر طرف سے ڈومیسائل قانون کے خلاف آواز بلند ہو رہی ہیں۔ جموں میں تو آئے دن اس حوالے سے احتجاج ہوتے دکھائی دیتا ہے۔"

وادی کے ایک اور سینئر صحافی حیا جاوید کو لگتا ہے کہ دفعہ 370 اور 35 اے کی منسوخی سے بھارت اور جموں و کشمیر کے مابین تعلقات میں دارڑ پڑ گئی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ "جن لوگوں کو بھارت پر یقین تھا اور یقین تھا کہ ملک ان کے ساتھ ہمیشہ کھڑا ہوگا ان کے اعتماد کو ان دفعات کے خاتمے کے بعد گہری چوٹ لگی ہے۔ کچھ مفاد پرست افراد مرکز کی جانب سے لیے گئے فیصلے اور اس کے بعد انتظامیہ کی جانب سے مسلسل لیے جارہے فیصلوں سے خوش ہیں تاہم جموں کشمیر کی بیشتر عوام ان فیصلوں کے بعد ناراض اور مایوس نظر آرہی ہے۔"

ان کا مزید کہنا تھا کہ " بی جے پی جلد بازی میں ایسے فیصلے لے رہی ہیں جس وجہ سے جموں وکشمیر کی عوام اور بھارت کے درمیان دوریاں بڑھتی جا رہی ہے۔ لوگ گزشتہ ایک برس سے پریشان ہیں اور مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ جو بھی ہو رہا ہے وہ بی جے پی کی جانب سے دفعات کے خاتمے کے وقت لیے گئے دعاؤں کے بالکل برعکس ہیں۔"

ڈومیسائل ایکٹ پر سوال اٹھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ "کیا انتظامیہ نے جموں وکشمیر کے تمام بے روزگار نوجوانوں کو ملازمت فراہم کی تھی کہ انہوں نے ملک کے دیگر حصوں سے لوگوں کو یہاں ملازمت کے لیے راغب کرنا شروع کردیا؟"

وزیر اعظم نریندر مودی کی صدارت میں گزشتہ برس پانچ اگست کو جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت منسوخ کیے جانے کے فیصلے کے بعد بھارتیہ جنتا پارٹی اس فیصلے کی واہ واہی کرتی نہیں تھک رہی ہے۔ وہیں رواں برس اس فیصلے کی سالگرہ کے موقع پر تقریبات منعقد کرنے کا فیصلہ بھی لیا ہے۔ دوسری جانب ماہرین اور جموں و کشمیر اور لداخ کے باشندگان الجھن اور خوف میں مبتلا ہیں۔

ای ٹی وی بھارت نے جموں و کشمیر کے تمام خطے میں رہنے والے افراد سے اس سلسلے میں بات چیت کی اور ان ماہرین سے بھی بات کی جو دفعہ 370 اور 35 اے کے خاتمے کے بعد علاقے میں ہو رہی تبدیلیوں پر اپنی نظر رکھے ہوئے ہیں۔

ماہرین کیا کہتے ہیں؟

دفعہ 370 کی منسوخی: صحافیوں کے خیالات

جہاں ایک طرف لوگ کیمرہ پر بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں وہیں دوسری طرف انتظامیہ کی جانب سے گزشتہ پانچ اگست کے بعد لیے گئے فیصلوں کی وجہ سے ان کے چہروں پر مایوسی اور الجھن صاف نظر آرہی تھی۔ دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد جموں کشمیر اور لداخ کی صورتحال پر اپنی نظر رکھے ہوئے ماہرین نے بھی انتظامیہ کی جانب سے لیے گئے فیصلوں کو یکطرفہ اور موقع پر قرار دیا۔

سینئر صحافی اور سیاسی تجزیہ کار ریاض منصورکے لیے انتظامیہ کی جانب سے لیے جانے والے فیصلے یکطرفہ ہونے کے ساتھ ساتھ غیر جمہوری بھی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ "ایک جمہوری نظام میں قوانین بنائے جاتے ہیں، ان کی ترمیم بھی کی جاتی ہے اور جب ان قوانین کو عملایا جاتا ہے تو شہریوں کو ان قوانین پر عمل کرنا لازمی ہوتا ہے۔ قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں پر کارروائی بھی کی جاتی ہے۔ کشمیر کی بات کرے تو گزشتہ ایک برس سے کئی ایسے قوانین بنائے گئے جن کے بارے میں عوام شکایت کر رہی ہیں وہ ناراض ہیں۔ یہاں کوئی منتخب سرکار نہیں ہیں۔ دو تین افسران انتظامی کونسل کے نام پر جموں و کشمیر کے لیے فیصلے لے رہے ہیں۔ یہ جمہوریت کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے۔ اور اسی لیے ہم انتظامیہ کی جانب سے لیے گئے فیصلے جیسے ڈومیسائل، لینڈ بینکنگ، ملازمت یا اور کوئی دیگر فیصلے کو عوام کی تنقید کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔"

ان کا مزید کہنا تھا کہ " اگر فیصلے ایک مناسب راستہ اختیار کر کے لیے جاتے تو مجھے لگتا ہے عوام میں ایسا غصہ اور ناراضگی پیدا نہیں ہوتی۔ اگر جموں و کشمیر میں سیاسی نظام درہم برہم نہ ہوا ہوتا تو آج حالات مختلف ہوتے۔ مقامی سیاسی لیڈران نے بھی ایسے اہم فیصلے لینے سے قبل ہی اپنی رائے ظاہر کی ہوتی۔ جو تبدیلی ہم اس وقت دیکھ رہے ہیں وہ یکطرفہ ہے اور جمہوری نظام کے لیے ایک چیلنج بھی ہے۔"

راجستھان کی اندرونی سیاست کے بارے میں عدالت عظمی کے مشہدہ کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ " حالی میں عدالت نے کہا تھا کہ جمہور یت میں اختلاف رائے کی آواز کو بند نہیں کیا جا سکتا۔ انتظامیہ کی جانب سے لیے گئے فیصلے ان کے نقطہ نظر سے درست ہوسکتے ہیں لیکن عوام کی شرکت کے بنا جمہوری نظام نا مکمل ہے۔"

مسرور نے مرکزی دائرے کے سیاست دانوں کو گزشتہ 5 اگست کے بعد سے زیرحراست رکھنے پر بھی اپنے خیالات پیش کیے۔

ان کا کہنا تھا کہ "جن سیاست دانوں نے کشمیر میں بھارت کا پرچم لہرایا، انتخابات میں حصہ لیا اور عوام کے ووٹ بھی حاصل کیے انہیں قریب قریب ایک سال سے زیر حراست رکھا گیا ہے۔ اس وقت کشمیر میں کسی بھی قسم کی سیاست نہیں ہے۔ یہ یقینی طور پر جمہوری نظام نہیں ہے۔"

اسی طرح کے خیالات کی باز گشت کرتے ہوئے وادی کے ایک اور صحافی فردوس الہی کا کہنا ہے کہ یہ فیصلے کشمیریوں کی آواز کو دبانے کے لیے جا رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ "دفعہ 370، 35 اے کا خاتمہ اور اس کے بعد لیے گئے دیگر فیصلے اس وقت لیے گئے جب عوام اپنے گھروں میں محدود رہنے کے لیے مجبور تھی۔ یہ سراسر غلط ہے۔ فیصلے تب لیے جاتے ہیں جب ایک منتخب سرکار ہو اور ایک مناسب رشتے کو اختیار بنایا ہو ۔ مجھے لگتا ہے کی عوام کی آواز دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ وہ خوف کے سائے میں زندگی بسر کر رہے ہیں اور کوئی اس بارے میں بات کرنے کو تیار بھی نہیں۔"

ان کا مزید کہنا تھا کہ "عوام پر اس وقت فیصلے تھوپے جا رہے ہیں کیونکہ ہر طرف قدغن اور پابندیاں عائد ہیں۔ اور انتظامیہ جانتی ہے کہ اس وقت عوام احتجاج بھی نہیں کرے گی۔ میں نہیں سمجھتا کہ یہ صحیح وقت تھا کسی بھی قسم کا فیصلہ لینے کے لیے۔ ایک طرف لوگ عالمی وبا کورونا وائرس سے ہلاک ہو رہے ہیں اور دوسری جانب انتظامیہ فیصلوں پر فیصلہ لیے جا رہی ہے۔ یہ بربریت ہے۔"

انتظامیہ کی جانب سے لیے گئے فیصلوں کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے الہی کا کہنا تھا کہ " وہ جموں کشمیر میں تبدیلی لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دیہاتوں میں لوگوں کو ڈومیسائل سرٹیفکیٹ لینے کے لیے مجبور کیا جا رہا ہے۔ کیونکہ یہ سرٹیفکیٹ اب ملازمت، اعلی تعلیم وغیرہ کے لیے ضروری قرار دیے گئے ہیں۔ اگر ہم شہری علاقوں کی بات کریں تو جموں کشمیر اور لداخ ہر طرف سے ڈومیسائل قانون کے خلاف آواز بلند ہو رہی ہیں۔ جموں میں تو آئے دن اس حوالے سے احتجاج ہوتے دکھائی دیتا ہے۔"

وادی کے ایک اور سینئر صحافی حیا جاوید کو لگتا ہے کہ دفعہ 370 اور 35 اے کی منسوخی سے بھارت اور جموں و کشمیر کے مابین تعلقات میں دارڑ پڑ گئی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ "جن لوگوں کو بھارت پر یقین تھا اور یقین تھا کہ ملک ان کے ساتھ ہمیشہ کھڑا ہوگا ان کے اعتماد کو ان دفعات کے خاتمے کے بعد گہری چوٹ لگی ہے۔ کچھ مفاد پرست افراد مرکز کی جانب سے لیے گئے فیصلے اور اس کے بعد انتظامیہ کی جانب سے مسلسل لیے جارہے فیصلوں سے خوش ہیں تاہم جموں کشمیر کی بیشتر عوام ان فیصلوں کے بعد ناراض اور مایوس نظر آرہی ہے۔"

ان کا مزید کہنا تھا کہ " بی جے پی جلد بازی میں ایسے فیصلے لے رہی ہیں جس وجہ سے جموں وکشمیر کی عوام اور بھارت کے درمیان دوریاں بڑھتی جا رہی ہے۔ لوگ گزشتہ ایک برس سے پریشان ہیں اور مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ جو بھی ہو رہا ہے وہ بی جے پی کی جانب سے دفعات کے خاتمے کے وقت لیے گئے دعاؤں کے بالکل برعکس ہیں۔"

ڈومیسائل ایکٹ پر سوال اٹھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ "کیا انتظامیہ نے جموں وکشمیر کے تمام بے روزگار نوجوانوں کو ملازمت فراہم کی تھی کہ انہوں نے ملک کے دیگر حصوں سے لوگوں کو یہاں ملازمت کے لیے راغب کرنا شروع کردیا؟"

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.