جموں و کشمیر میں گزشتہ برس ضلع بڈگام میں بھارتی فوج نے اپنے ہی ایک ہیلی کاپٹر کو مار گرایاتھا جس کے نتیجے میں دو پائلٹ اور چار کریو ممبرز ہلاک ہوئے تھے۔ اس ضمن میں مبینہ طور پر گرفتار کئے گئے افسران پر فی الحال کاروائی پر 30 ستمبر تک روک لگادی گئی ہے۔
سال 2019 میں بھارت نے پاکستان کے مضافاتی حدود میں گھس کر بالا کوٹ میں ایک سرجیکل اسٹرائیک کی اور بغیر کسی نقصان کے واپس آئے۔ اس اسٹرائیک کے دوسرے روز ہی پاکستان نے جوابی کاروائی کی اور وہ بھارتی فضائیہ میں گھس کر ان کے ایک جنگی طیارے کو مار گرایا جو پاکستانی سر زمین پر جا گرا۔ اس جہاز کے پائلٹ ونگ کمانڈر ابھینندن کو پاکستانی رینجرز نے زخمی حالت میں گرفتار کیا گیا اور اسے علاج و معالجہ کر کے خطے میں امن و امان کے قیام کے لیے اس کو واگھہ بارڈر کے راستے بھارت کے حوالے کیا۔
کورٹ نے سبھی جماعتوں کی دلیلیں سنیں اور تمام نتائج کی بنیاد پر اگلی تاریخ 30 ستمبر تک کوئی کارروائی نہ کرنے کا حکم دیا۔
بتایا جارہا ہے کہ کورٹ آف انکوائری کے ضابطوں کی عدم تعمیل کی گئ جس کے مدنظر ان کے خلاف کوئی بھی کاروائی عمل میں نہیں لائی جائے گی یہ کیس اب اگلی تاریخ 30 ستمبر تک رہے گی۔
پرنسپل بینچ آرمڈ فورسز ٹربیونل کے چیئرمین راجیند شرما نے کہا کہ یہاں پر یہ واضع ہوتا ہے کہ کورٹ آف انکوائری کے طرز عمل کو غیر مستحکم طریقے سے کیا گیا ہے جس کی وجہ سےمذکورہ افسران کے خلاف کوئی بھی کاروائی عمل میں نہیں لائی جائے گی۔
جس وقت اس ہیلی کاپٹر کے ساتھ یہ حادثہ پیش آیا اس وقت جی پی کیپٹن چودھری سرینگر آئر بیس کے چیف آپریشنز آفیسر تھے جبکہ ونگ کمانڈر سینئر ایئر ٹریفک کنٹرول آفیسر تھے۔