اس تباہی کو دیکھتے ہوئے ریاستی وزیر ذو الفقار علی بھی موقع پر پہنچے تھے جنہوں نے اس سڑک کی تعمیر کے لیے آرڈر جاری کیے تھے۔ اس کے بعد سابق وزیرِ اعلیٰ محترمہ محبوبہ مفتی نے پبلک دربار میں1 کروڑ 95 لاکھ روپے ریلیز کرنے کے آرڈر دیے تھے۔ جس کے بعد سڑک پر کوئی کام ہوتا نظر نہیں آیا اور نہ ہی ضلع انتظامیہ ٹس سے مس ہوئی۔
سڑک کی خستہ حالی کی وجہ سے کئی بار گاڑیاں حادثے کا شکار ہوئی جس میں نوجوان کی جانیں بھی گئی۔
شکیل احمد نامی مقامی شخص نے ذرائع سے بات کرتے ہوئے کہا کہ چار سال سے اڑائی کی عوام سڑک سے محروم ہے، اڑائی سے منڈی ہر روز سینکڑوں کی تعداد میں سکولی بچے اور علاقے کے لوگ بازار میں خرید و فروخت کرنے کے لیے تین سے چار کلو میٹر کا سفر طئے کر کے جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سڑک کی خستہ حالت اور کھڈوں کی وجہ سے لوگوں کو پریشانیوں سے دوچار ہونا پڑ رہا ہے۔ البتہ جب اڑائی سڑک کا کام شروع کیا گیا تھا تب ٹھیکیدار نے سڑک کی کٹائی کرکے مشینیں واپس کر لی اور دوسری سڑکوں پر کام شروع کر لیا اڑائی سڑک کو صرف پتھر کی کان بنا کر رکھ دیا ہے۔
شکیل نے کہا کہ پہلے پھر بھی سڑک پر گاڑیاں چلنے کے قابل تھی لیکن آج ڈرائیور اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر گاڑیاں چلاتے ہیں۔ بالخصوص بارشوں اور برف باری کے دوران کسی بھی بڑے حادثے کا خطرہ بنا رہتا ہے۔ تاہم کئی بار ضلع انتظامیہ کو اطلاع بھی کی گئی لیکن ان کے کان پر جوں تک نہ رینگی اڑائی کی عوام کے ساتھ بار ہا بار ناانصافی کی جارہی ہے۔ جو کہ ناقابلِ برداشت ہے۔
انہوں نے لیفٹیننٹ گورنر اور ضلع انتظامیہ سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ جلد از جلد اس سڑک کو پائے تکمیل تک پہنچایا جائے تاکہ لوگوں کو سہولیات فراہم ہو سکے۔