اے ای سی ٹی ای کی طرف سے ریاست کے سکریٹری ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ اور جنرل ایڈمنسٹریشن ڈیپارٹمنٹ کو لکھے گئے خط کے مطابق' کشمیری طالب علموں کو پاکستان اور پاکستانی زیر انتظام کشمیر میں واقع تعلیمی اداروں میں داخلہ لینے سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ یہ ادارے بھارتی حکومت سے منسلک نہیں ہے۔'
یہ فیصلہ اے ای سی ٹی ای کے مطابق تب لیا گیا جب کچھ کشمیری طالب علموں نے اسلام آباد میں بھارتی ہائی کمیشن سے تصدیق کے لیے رجوع کیا۔
گذشتہ ہفتے، یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کے سکریٹری رجنی سجین نے بھی ایک ایڈوائزری جاری کی تھی۔ اس کے مطابق 'بھارتی طالب علموں کو پاکستانی تعلیمی اداروں میں داخلہ لینے سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے اور وہاں کے تعلیمی ادارے نہ تو بھارتی حکومت نے تعمیر کیے ہیں اور نہ ہی ہم سے منسلک ہیں۔'
وہیں کشمیر میں ایجوکیشن کنسلٹنسی چلانے والوں کا کہنا ہے کہ وہ طالب علموں کو ان کے بہتر مستقبل کے لیے مشورہ تو ضرور دیتے ہیں لیکن کس ملک میں اور کس کالج میں جانا ہے یہ طالب علم اور ان کے والدین کا فیصلہ ہوتا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ' کشمیر میں کوئی بھی رجسٹرڈ کنسلٹنسی طالب علموں کو پاکستان تعلیم کے لئے نہیں بھیجتی اور وہاں پر داخلہ والدین اکثر اپنے نیچے ذرائع سے کرواتے ہیں۔'
پاکستان کی دارالحکومت اسلام آباد میں واقع انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی سے ایم اے انٹرنیشنل ریلیشنز کی تعلیم حاصل کر رہے جبران مجید کے والدین کا ماننا ہے کہ ' بھارت میں ویسے بھی روزگار دستیاب نہیں ہیں ایسے میں تعلیم مکمل کرکے ہمارا فرزند سعودی، دبئی ،بحرین کویت یا پھر امریکا میں نوکری کرتا ہے تو اس میں کسی کو کیا حرج ہوسکتا ہے۔'
جبران کے والدین نے کیمرہ کے سامنے نہ آنے کی شرط ای ٹی وی بھارت سےان باتوں کا اظہار کیا۔