گزشتہ ماہ مرکزی حکومت نے جموں و کشمیر نوجوانوں کو دی گئی عمر میں رعایت کو ختم کرنے کے احکامات صادر کئے تھے، جس سے نوجوانوں میں مایوسی چھاگئی اور کئی سیاسی جماعتوں نے اس فیصلے پر اپنی ناراضگی ظاہر کی۔
اس رعایت سے جموں و کشمیر نوجوانوں کو مرکز کے مختلف نوکریوں بشمول سول سروس امتحانات میں پانچ برس عمر میں رعایت دی جاتی تھے۔اس رعایت سے جموں و کشمیر کے وہ نوجوان مستفید ہوتے تھے جن کا جنم سنہ 1980 تا 1989کے درمیان ہوا تھا۔
مرکزی حکومت نے یہ رعایت وجہ سے دے تھی کہ جموں و کشمیر میں ان برسوں کے دوران عسکریت پسندی اور نامسائد حالات کی وجہ سے نوجوانوں کو تعلیمی لحاظ سے کافی نقصان ہوا تھا اور وہ حالات کی وجہ سے ملک کے دیگر تعلیم تافتہ نوجوانوں سے مقابلہ نہین کر پائیں گے۔
جموں و کشمیر کے بی جے پی کے صدر رویندر رینہ نے وزیراعظم کے دفتر میں تعینات مرکزی وزیر مملکت ڈاکٹر جتیندر سنگھ کے نام ایک مکتوب بھیجا ہے جس میں انہیں کہا گیا جموں و کشمیر کے نوجوانوں کو عمر میں رعایت دینے والے فیصلے کو واپس لیا جائے کیوکہ اس حکمنامے سے یوٹی کے تعلیم یافتہ نوجوانوں میں ناراضگی پیدا ہوگئی ہے اور انکے بے روزگار ہونے کے مزید خدشات بڑھ گئے ہیں۔
رویندر رینہ نے مزید لکھا ہے کہ ـایک طرف سے مرکزی حکومت دعوے کر رہی ہے کہ نئی سیاسی اور قانونی نظام سے جموں و کشمیر میں نئی ترقی ہوگی اور نوجوانوں کو نوکریوں کے مواقع مئیسر ہوں گے، وہیں حیرانگی والی بات ہے کہ بھارتہ سرکار نے سخت اور غیر موزوں فیصلے لیا ہے جس سے نوجوانوں کیلئے تباہ کن نتایج پیش آئیں گے۔
وہیں ذرائع کا کہنا ہے کہ مرکز کے اس حکمنامے کے بعد جموں خطے میں بھاجپا کی حمایت کرنے والے نوجوانوں نے متعدد بار بھاجپا اور آر ایس ایس دفاتروں میں جاکر اپنی ناراضگی دکھائی ہے اور اس فیصلے کو جونوانوں کے خلاف قرار دے کر انہیں باور کیا ہے کہ وہ مرکزی حکومت سے اس فیصلے کو واپس لینے کا مطالبہ کریں۔
اس ضمن میں گزشتہ دنوں جموں میں اس فیصلے کے خلاف متعدد نوجوانوں نے ایک دستطختی مہم کا انعقاد بھی کیا تھا جس کو وہ بطور احتجاج مرکزی حکومت کو پیش کریں گے۔