میوے کی صنعت سے وابستہ ہزاروں لوگ انتہائی درد و کرب میں مبتلا ہیں کیونکہ نقل و حمل اور مواصلات پر لگی پابندیوں کی وجہ سے انہیں مختلف قسم کی دقتوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔
میوہ کاشتکاروں اور تاجروں کے مطابق موجودہ صورتحال میں جہاں زندگی کا ہر شعبہ متاثر ہوا ہے وہیں باغبانی سے وابستہ لوگوں کیلئے یہ صورتحال اسلئے زیادہ پریشان کن ہے کیونکہ انکی فصل تیار ہے اور اسے خریداروں تک پہنچانے کیلئے مختلف رکاوٹیں حائل ہیں۔میوہ منڈیاں بند پڑی ہیں اور بیرون ریاست کی منڈیوں میں آڈتیوں کے ساتھ رابطہ کرنا مشکل ہورہا ہے۔
میوہ صنعت سے وابستہ لوگ خدشات میں مبتلا ہیں کہ کس طرح باغات سے مارکیٹ تک کا سفر طے کیا جائے۔
موجودہ صورتحال کے دوران ٹرانسپورٹرز میوہ کو بیرون ریاستوں کی منڈیوں تک پہنچانے کے لئے کاشتکاروں سے من مانا کرایا وصول لیتےہیں۔
دوسری جانب انتطامیہ کا کہنا ہے کہ میوہ کاشتکاروں اور فروٹ تاجروں کو ہر طرح کی سہولیات بہم پہنچانے کی کوششیں جاری ہیں۔جبکہ ٹرانسپورٹروں کو بھی اس حوالے سے متنبہ کیا گیا ہے وہ میوہ تاجروں سے من مانا کرایہ وصول نہ کریں۔
واضح رہے کہ ہارٹیکلچر شعبے کو وادی کی معشیت میں کلیدی حثیت حاصل ہے ۔ ایسے میں باغبانی شعبہ متاثر ہونے کی وجہ سے یہاں کی معشیت پر بھی برے اثرات منڈلارہے ہیں ۔اس پس منظر میں اب باغ مالکان و میوہ تاجروں کی تمام تر نظریں انتظامیہ کی مناسب سہولیات بھی بہم رکھی جائیں۔
جموں و کشمیر میں 5 اگست کو حکومت ہند کی جانب سے دفعہ 370 کو غیر مؤثر بنانے اور ریاست کا خصوصی آئینی درجہ منسوخ کئے جانے کے بعد 38 روز بعد بھی امتناعی احکامات جاری ہیں جن سے عام زندگی مفلوج ہوکر رہ گئی ہے۔
حکام نے مواصلاتی نظام پر کلی یا جزوی پابندیاں عائد کی ہیں جب کہ وادی کے متعدد مقامات پر فورسز کی بھاری نفری تعینات کی گئی ہے۔انتظامیہ کے بعض اہلکاروں اور پولیس تھانوں کے موبائل فون چالو کئے گئے ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ وادی کے سبھی ٹیلیفون ایکسچینج فعال بنائے گئے ہیں اور اب لوگ لینڈ لائن فونز کے ذریعے رابطہ کرسکتے ہیں۔