مسلسل برفباری اور خراب موسم کے دوران آج شمالی کشمیر کے قصبہ سوپور میں 27 سال قبل ہوئی تباہ کاریوں کو یاد کیا جارہا ہے۔
مقامی لوگوں کے مطابق 1993 میں آج کے ہی روز درجنوں افراد کو ہلاک کیا گیا تھا جبکہ قصبے کے ایک وسیع علاقے کو نذر آتش کرکے تباہ کردیا گیا تھا۔
لوگوں کا الزام ہے کہ سرحدی حفاظتی فورس یا بی ایس ایف کے اہلکاروں نے 4 گھنٹوں کے وقفے میں کم از کم 57 افراد ہلاک کئے جبکہ 400 سے زیادہ عمارتیں تباہ ہوگئیں۔
حکام کا کہنا تھا کہ یہ ہلاکتیں عسکریت پسندوں اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان ہوئی خونریز جھڑپ کے نتیجے میں ہوئیں۔
سوپور ہلاکتوں کے بارے میں بی ایس ایف کے خلاف ایف آئی آر درج ہوئی۔یہ فرسٹ انفارمیشن رپورٹ 1993 میں سوپور میں محمد الیاس صدر ، انجمن معین الاسلام نے زیر نمبر 8/1993' کے طور پر درج کیا تھا۔ ایف آئی آر میں بی ایس ایف پر الزام عائد کیا گیا کہ انہوں نے 57 افراد کو ہلاک کیا اور شہر میں کل 400 مکانات اور دکانیں نذر آتش کیں۔
رپورٹ میں بی ایس ایف کی 94 ویں بٹالین کو رنبیر پینل کوڈ (آر پی سی) کی دفعہ 302 (قتل)، 307 (قتل کی کوشش) اور 436 (مکانات کو تباہ کرنے کے ارادے سے، مکانات کو تباہ کرنے یا دھماکہ خیز مواد کا استعمال کرنے) کا تزکرہ کیا گیا۔ رنبیر پینل کوڈ جموں وکشمیر کا انڈین پینل کوڈ (IPC) کا ورژن تھا جسے اب آرٹیکل 370 میں ترمیم کے بعد کالعدم قرار دیا گیا ہے۔
محمد الیاس کے ذریعہ دائر ایف آئی آر کے جواب میں، بارڈر سیکیورٹی فورس نے کاؤنٹر ایف آئی آر درج کیا۔ جس میں انڈین آرمس ایکٹ، اور ٹی اے ڈی اے کی دفعہ 4 (iii) کا استعمال کر کے دیہاتیوں کو فائرنگ اور اس کے نتیجے میں مسلح بٹالین کو ہونے والے نقصان کا الزام عائد کیا گیا۔
ہلاکتوں کی بہت زیادہ تعداد پر بین الاقوامی سطح پربازگشت سنائی دی ۔ امریکہ سے شائع ہونیوالے ٹائم میگزین نے اس واقعہ کا اپنا ورژن 'بلڈ ٹائڈ رائزنگ' کے عنوان سے لکھا ۔
یہ معاملہ اس مواصلاتی بلیک آؤٹ کے پس منظر میں پیش آیا تھا جس کی وجہ سے وادی میں کئی ماہ تک مواصلاتی نظام ٹھپ ہوگیا تھا۔ مائیکرو ویو ٹرانسمیشن ٹاور پر ہوئے حملے کی وجہ سے جموں و کشمیر کا بھارت کے ساتھ مواصلاتی سرور مفلوج (خراب) ہوگیا تھا۔
حکومت نے عسکریت پسندوں پر ٹرانسمیشن ٹاور کے حملے کا الزام عائد کیا تھا، لیکن عسکریت پسند تنظیموں نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ حکومت نے یہ بلیک آوٹ اپنے ہتھکنڈوں کی جانچ پڑتال سے بچنے کے لئے کیا ہے۔
اس وقت کے وزیراعظم پی وی نرسمہا راؤ نے دعویٰ کیا تھا کہ زیادہ تر ہلاکتیں بی ایس ایف کے جوانوں اور مسلح عسکریت پسندوں کے مابین شدید گولی باری کے نتیجہ میں پیش آئیں، جس دوران دھماکہ خیز مواد پھٹا تھا، جس سے قریبی عمارتوں کو آگ لگ گئی۔
سرینگر نشین سرکردہ صحافی یوسف جمیل نے آج ایک فیس بک پوسٹ میں اس سانحے کو یاد کرتے ہوئے لکھا کہ ’’جب اس قتل عام کے 30 گھنٹے بعد ہمیں اس قصبے میں داخل ہونے کی اجازت دی گئی تو ہم صرف جلتی ہوئی عمارتوں اور دکانوں کو دیکھ سکے۔ سبھی ہلاک شدگان سپرد خاک کئے گئے تھے۔ ہم نے صرف گھروں سے خوفناک چیخیں سنیں۔ جب کسی نے آواز لگائی کہ یوسف جمیل آگیا ہے تو چیخیں اور جنگ زدہ ماحول کی آوازیں بلند ہوئیں ۔ نوجوانوں میں غصہ انتہائی شدید تھا‘‘۔
حکومت نے واقعے کی تفصیلات کو دیکھنے کے لئے 30 جنوری 1993 کو جسٹس امرجیت چودھری پر مشتمل ایک انکوائری کمیشن تشکیل دیا۔
30 جنوری 1993 سے 30 اپریل 1994 کے درمیان، ایک رکنی کمیشن نے ایک بار جموں و کشمیر کا دورہ کیا۔ اس کے بعد حکومت نے اپنے ہی کمیشن کی رپورٹ کو 'فرضی' قرار۔ بعد میں یہ تحقیقات سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن (سی بی آئی) کو منتقل کی گئی چنانچہ 2013 میں جب سی بی آئی نے اپنی رپورٹ سامنے لائی تو اس نے بتایا کہ"شکایت کنندہ کے ذریعہ پیش کردہ 51 متاثرین کی فہرست کی جانچ پڑتال کی گئی جس سے پتہ چلا 51 میں سے تفتیشی ریکارڈ میں 33 افراد کے نام شامل ہیں۔‘‘
سوپور میں گزشتہ تین دہائیوں کے دوران تشدد کے بے شمار واقعات سامنے آئے ہیں اور کئی بار بستیاں اور بازار نذر آتش ہوئے۔ ایک بار کشمیر کا ’چھوٹا لندن‘ کہلایا جانے والا یہ قصبہ، ان واقعات کے نتیجے میں اقتصادی طور کافی متاثر ہوا۔