پانی پت: ایک طرف جہاں کسان اپنے مطالبات کے ضمن میں دہلی کی سرحد پر ڈٹے ہوئے ہیں تو وہیں دوسری جانب کسانوں کی جانب سے کیے جارہے احتجاج کے سبب کئی صنعتوں پر اس کا اثر پڑرہا ہے۔
کسانوں کی جانب سے جاری احتجاج کا سب سے زیادہ اثر ایشیا کی سب سے بڑی صنعت کمبل پر پڑرہا ہے ، سرحد پر جاری احتجاج کے سبب پانی پت کے بازار لاک ڈائون کے بعد ایک بار پھر سنسان پڑے ہیں۔
واضح رہے کہ پانی پت کے کمبلوں کی مانگ جموں وکشمیر سے لے کر کنیا کماری تک ہے۔
یہاں کے بنے ہوئے کمبل باہر ممالک میں بھی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔
لیکن دہلی کے راستے بند ہونے کے سبب ٹرانسپورٹ سسٹم پوری طرح سے ناکام ہوگیا ہے۔
دوکانداروں کے مطابق پچھلے سات آٹھ روز کے درمیان کمبل کی صنعت کو چار سو پچاس کروڑ کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
پانی پت ضلع ویاپار منڈل کے صدر سریش باویجا نے بتایا کہ پانی پت میں چھوٹے بڑے کاروبار ملاکر تقریباً چار ہزار دوکاندار ہیں۔
جس مارکیٹ کی کمائی روزانہ کی بنیاد پر تیس کروڑ کے قریب ہوتی تھی آج وہ سمٹ کر صفر پر آگئی ہے۔
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ اگر جلد سے جلد مسئلہ کا حل نہیں نکالا گیا تو پھر بھاری نقصان میں چلے جائیں گے۔
اور اس کے نتیجہ میں حکومت کو آنے والے وقت میں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔
اس موقع پر دوسرے دوکانداروں نے بھی اپنی پریشانی کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ احتجاج کے سبب صارفین بازار میں آنے سے کترارہے ہیں۔
جب کہ نومبر اور دسمبر میں کمبلوں کا سیزن ہوا کرتا ہے لیکن کسانوں کے جاری احتجاج کے سبب تمام راستے بند ہں اور اسی وجہ سے دوسری ریاستوں کو کمبلوں کی سپلائی بند ہوچکی ہے۔
جمعرات کو کسانوں اور مرکزی حکومت کے درمیان ایک بار پھر سے بات چیت ہونے جارہی ہے۔
اگر اس بات چیت میں بھی کوئی نتیجہ نہیں نکلتا ہے تو کسانوں کا احتجاج اور شدت اختیار کرسکتا ہے۔ جس کا اثر سیدھے پانی پت کے کمبل مارکیٹ پر پڑنا طے ہے۔