احمدآباد: ممبئی اور دہلی میں واقع بی بی سی کے دفاتر پر گذشتہ روز انکم ٹیکس نے چھاپہ ماری کی جو ملک بھر میں موضوع بحث ہے۔ بی بی سی کے خلاف انکم ٹیکس کی چھاپہ ماری سے متعلق اپوزیشن پارٹیوں نے مرکزی حکومت پر سخت تنقید کی، وہیں اس چھاپہ ماری کے بعد گجرات فسادات 2002 سے متعلق بھی سوالات اٹھ رہے ہیں جس پر گجرات کے سماجی کارکنان نے اپنے رد عمل کا اظہار کیا ہے۔ سماجی کارکنان نور جہاں دیوان نے کہا کہ بی بی سی کے دفاتر پر جس طریقے سے چھاپہ مارا گیا ہے وہ بالکل غلط ہے اس طرح سے سرکار لوگوں کی آواز کو دبانا چاہتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2002 گجرات فسادات میں جو ہوا غلط ہوا ہے اس پر بی بی سی نے لوگوں کے سامنے سچائی کو پیش کیا۔ جس کے بعد بی بی سی کے دہلی اور ممبئی میں واقع دفاتر پر انکم ٹیکس نے چھاپہ ماری کی جسے دیکھ کر ایسا لگ رہا ہے کہ اگر ہم حکومت کے حق میں بولتے ہیں سرکار کی واہ واہ کرتے ہیں تو وہ بات حکومت کو بہت اچھی لگتی ہیں لیکن جو چینل حقیقت دکھاتے ہیں اس پر آئی ٹی کے چھاپے مارے جاتے ہیں۔ ان پر کیس درج کیے جاتے ہیں اور ان کی آواز کو دبایا جاتا ہے ۔ جس سے سرکار کی نا انصافی نظر آ رہی ہے سرکار چاہتی ہی نہیں ہے کہ حقییت لوگوں کے سامنے آئے اسی لیے وہ اس طرح کے اقدامات اٹھاتے ہیں۔ لیکن آج لوگ بہت اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ بھارت میں کیا ہو رہا ہے انہوں نے کہا کہ سرکار کی پالیسی ہے کہ اگر آپ آواز اٹھاتے ہیں تو آپ کی آواز کو دبا دیا جائے گا۔
وہیں سماجی کارکن پروین بانو نے اس سلسلے میں کہا کہ ہمارا ملک جمہوری ملک ہے۔ ہمیں اس ملک میں بولنے کی آزادی ہے، لیکن جب کوئی شخص یا ادارہ بولتا ہے تو اس کی آواز کو دبایا جاتا ہے۔ بی بی سی نے بھی جو حقیقت دکھایا ہے اس پر بھی آئی ٹی نے چھاپے مارے، یہ غلط ہے۔ اقتدار میں بیٹھے لوگ پورے بھارت میں نفرت کا ماحول پیدا کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گجرات فسادات میں بہت سے لوگوں کی جانیں گئیں بہت سے لوگ بے گھر ہو گئے، لوگوں کا گھر جل کر راکھ ہوگیا اس وقت تو کسی طرح کا ایکشن نہیں لیا گیا۔ لیکن اگر کوئی چینل آواز اٹھاتا ہے تو ان پر آئی ٹی کے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ یہ کہاں کا انصاف ہے۔ ہم جمہوری ملک میں رہتے ہیں۔ ہمیں بولنے کا حق ہے لیکن یہاں سچ بولنے والوں کو بولنے نہیں دیا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں : IT Raid in BBC Office بی بی سی دفاتر پر انکم ٹیکس کے چھاپے، اپوزیشن رہنماؤں کی مرکزی حکومت پر تنقید