احمد آباد: گجرات فرقہ وارانہ فساد میں بلقیس بانو کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے والے مجرموں کی رہائی کے خلاف ہندو مسلم ایکتا سمیتی گجرات کی جانب سے 26 ستمبر کو بلقیس بانو کے گاؤں رندھیک پور سے 'بلقیس بانو سے معافی مانگو پیدل مارچ' کا اہتمام کیا گیا تھا لیکن گجرات پولیس نے پیدل مارچ کرنے نہیں دیا۔ اس معاملے پر ہندو مسلم ایکتا سمیتی کے کوآرڈینیٹر کوثر علی سید سے ای ٹی وی بات چیت کی۔ Gujarat Riots
کوثر علی سید نے بتایا بلقیس کے ساتھ ہوئی ناانصافی کے خلاف ہندو۔مسلم مل کر بلقیس بانو کے گاؤں رندھیک پور سے 26 ستمبر سے 4 اکتوبر تک ایک پیدل مارچ کرنے والے تھے جس کے لیے ہم 25ستمبر کو گودھرا میں پہنچ گئے، لیکن وہیں پر پولیس انتظامیہ نے گودھرا چھاؤنی میں تبدیل کیا اور ناکہ بندی کردی تاکہ کوئی گاؤں سے نکل نہ سکے اور نہ ہی کوئی گاؤں میں داخل ہو سکے۔ کوثر علی نے کہا کہ پیدال مارچ کے بعد پریس کانفرنس کا بھی انعقاد کیا گیا تھا اور گودھرا میں ہم ایک کونسلر کے گھر کھانا کھانے کے لیے رکے تھے، اسی دوران رات کے 10 بجے پولیس کے درجنوں گاڑیاں پیدل چلنے والوں کی گرفتاری کے لیے کونسلر کے گھر پہنچی جس میں ہمارے ساتھی سندیپ پانڈے اور پیدل مارچ میں جڑے لوگوں کو پولیس حراست میں لے لیا۔ Bilkis Bano Rape Case
اس سے ناراض ہو کر ہزاروں لوگوں نے گودھرا میں بھی ڈویژن پولیس اسٹیشن کا گھیراؤ بھی کیا جس کے باعث پولیس نے تمام خواتین اور پیدل مارچ کرنے والے لوگوں کو رہا کرنا پڑا لیکن پولیس نے ہمیں میں رندھیک پور گاؤں سے پیدل مارچ کرنے نہیں دیا بلکہ گودھرا سے 25 کلو میٹر دور کنکن پور تھانے میں لے گیے۔
انہوں نے کہا کہ دوسرے دن ہمیں میں الگ الگ پولیس اسٹیشن سے ہوتے ہوئے احمد آباد کے اوڈوں کو پولیس اسٹیشن سونپ دیا گیا لیکن ہم نے ہمت نہیں ہاری اور بلقیس بانو سے معافی مانگو کے تحت نکالی جانے والی پیدل مارچ کے لئے سندیپ پانڈے نے انشن شروع کردیا ہے اور وہ معاملے کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ گجرات اسمبلی انتخابات میں فائدہ اٹھانے کے لیے حکومت نے بلقیس بانو کے مجرموں کو رہا کر رہا ہے اور حکومت چاہتی ہے کہ بلقیس بانو کے معاملے کو دبا دیا جائے۔