پیر کو قانون سازی کے کام کاج کو نمٹانے کے بعد مسٹر نائیڈو نے اراکین سے کہا کہ انھیں 14 پارٹیوں کے 15 راجیہ سبھا اراکین کا ایک خط ملا ہے جس میں پارلیمنٹ میں اپوزیشن کی آواز دبائے جانے کے ساتھ ساتھ بلوں کو بغیر پارلیمانی کمیٹیوں کے جائزے کے پاس کرائے جانے کا مسئلہ اٹھایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس خط پر تین دیگر پارٹیوں کے اراکین کا بھی نام لکھا گیا ہے لیکن ان کے دستخط نہیں ہیں۔
مسٹر نائیڈو نے کہا کہ خط میں اٹھائے گئے مسائل ان کے دائرہ اختیار سے باہر ہیں لیکن وہ ریکارڈ کی تفتیش کی بنیاد پر کہہ سکتے ہیں کہ پارلیمنٹ میں اپوزیشن کی آواز دبائے جانے کی بات درست نہیں ہے۔ انہوں نےکہا کہ اراکین نے فکر اور تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ میں بہت کم موضوعات پر مختصر وقت کے لیے بحث ہوتی ہے جبکہ پہلے سے پارلیمنٹ میں ہر ہفتے ایک موضوع پر مختصر بحث کروانے کی روایت رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اراکین کی اپوزیشن رہنماؤں کی آواز دبانے کی شکایت سنگین ہے اور اسے دیکھتے ہوئے انہوں نے راجیہ سبھا سکریٹریٹ سے کہا تھا کہ وہ اس بات کی تفتیش کرے کہ کیا پارلیمنٹ میں ہر ہفتے ایک موضوع پر مختصروقت کے لیے بحث کروانے کی روایت رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ سکریٹریٹ کے ریکارڈ میں 1978 سے 2013 تک کے 36 برسوں کی معلومات ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ اس دوران 16 برسوں میں راجیہ سبھا میں ہر سال محض ایک سے لے کر پانچ مسائل پر مختصر بحث ہوئی۔ سنہ 1984 میں تو محض ایک ہی موضوع پر بحث ہو سکی۔ ان 36 سالوں میں ہر سیشن میں تین سے بھی کم مسائل پر مختصر بحث ہوئی۔ اس سے اراکین کی شکایت میں کہی گئی یہ بات درست ثابت نہیں ہوتی کہ پارلیمنٹ میں ہر ہفتے ایک موضوع پر مختصر وقت کے لیے بحث ہوتی رہی ہے۔
مسٹر نائیڈو نے کہا کہ اس سیشن میں دو موضوعات پر مختصر وقت کے لیے بحث ہو چکی ہے۔ پارلیمنٹ میں تقریباً ڈھائی دن تک کام کاج نہیں ہو سکا اور مزید ایک موضوع پر بحث ہوسکتی تھی۔ ابھی بھی ایک اور موضوع پر بحث ہو سکتی ہے لہٰذا اس بارے میں پارلیمنٹ میں کسی ضابطے یا روایت کی خلاف ورزی نہیں ہورہی ہے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ پارلیمنٹ اپوزیشن کی آواز دبائے جانے کی شکایت درست نہیں ہے۔