جموں و کشمیر میں لاپتہ افراد اور ان کے لواحقین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی معروف سماجی کارکن پروینہ آہنگر نے انسانی حقوق کے لیے کام کرنے سے متعلق اور اپنی زندگی کے اس سفر کے نشیب و فراز سے متلعق ای ٹی وی بھارت کے ساتھ خصوصی گفتگو کی۔
پروینہ آہنگر کو حال ہی ایک بین الاقوامی صحافتی ادارے نے دنیا بھر کی 100 بااثر خواتین کی فہرست میں شامل کیا ہے۔
پروینہ آہنگر تین دہائیوں سے کشمیر کے طول و عرض میں لاپتہ افراد سے متعلق معلومات اور جانکاری کے لیے کام کر رہی ہیں، اور ان کی خدمات کے اعتراف میں بین الاقوامی سطح پر اب تک متعدد انعامات سے نوازا جا چکا ہے۔
پروینہ آہنگر کے مطابق ان کے 16سالہ فرزند کو اگست 1990میں چھاپے کے دوران گرفتار کیا گیا اور اب تک ان کے فرزند کی کوئی بھی خبر انہیں موصول نہیں ہوئی ہے۔
پروینہ آہنگر نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ 'انہوں نے سبھی محکموں، انسانی حقوق کے لیے کام کر رہی تنظیموں، عدالتوں اور سیاسی رہنمائوں سے اپنے لخت جگر سے متعلق معلومات حاصل کرنا چاہیں مگر انہوں نے کہا کہ ان کے فرزند کو اس وقت کے ایک سرگرم عسکریت پسند کا ہم نام ہونے کے شبہ میں گرفتار کرنے کے بعد لاپتہ کر دیا گیا'۔
پروینہ آہنگر کا کہنا ہے کہ ایک ماں ہونے کی وجہ سے وہ اپنے لخت جگر کی اس طرح جدائی برداشت نہیں کر سکیں اور انہوں نے اپنے بیٹے کی بازیابی کی خاطر جدوجہد شروع کر دی۔ ان کے مطابق اس سفر میں انہوں نے کئی پریشانیوں اور لامتناہی مصائب کا سامنا کیا مگر انہوں نے ہمت نہ ہار کر اپنے اس مشن کو جاری رکھا۔
پروینہ کے مطابق اس سفر میں جب ان کی ملاقات ایسی ہی کئی ماؤں اور بہنوں کے ساتھ ہوئی جن کے بھائی یا فرزند بھی اسی طرح گرفتار کرکے لاپتہ کر دیے گئے تو انہوں نے انکے حقوق سے متعلق بھی آواز بلند کی اور اس طرح اے پی ڈی پی نامی تنظیم کی بنیاد رکھی گئی۔
اس سفر میں آہنگر کے مطابق ان کے شوہر نے بھی انکا پورا ساتھ نہیں دیا اس کے باوجود بھی وہ کم ہمت نہیں ہوئیں۔
وادی کشمیر میں انسانی حقوق سے متعلق کام کر رہی مختلف تنظیموں کی فہرست کے مطابق پچھلی تین دہائیوں میں ہزاروں افراد جبری لاپتہ کیے گئے اور ان کے لواحقین کو ان کے زندہ ہونے کی کوئی اطلاع ہے نہ مردہ ہونے کی۔
ایسی کئی خواتین بھی وادی میں موجود ہیں جن کے شوہر جبری طور لاپتہ کیے گئے، جو اب بھی ان کی تلاش میں ہیں۔
مزید پڑھیں : کشمیر میں سیاسی گفتگو دوبارہ شروع کرنے کا مطالبہ
پروینہ آہنگر کے مطابق ایسی خواتین کی زندگی عجیب کشمکش میں مبتلا ہے کہ وہ اپنے شوہر کے واپس آنے کا انتظار کریں یا پھر از سر نو ازدواجی زندگی شروع کریں۔
پروینہ آہنگر نے بتایا کہ ایسے کنبوں، جن کے اعزہ و اقارب لاپتہ ہیں، کی حالت دفعہ 370کی منسوخی کے بعد اور ابتر ہوئی ہے، ان کے مطابق 'انہیں ان کنبوں کی کوئی خبر نہیں ہے'۔