ٹریبونل نے کہا ہے کہ جے کے ایل ایف کو غیر قانونی تنظیم قرار دینے کی خاطر خواہ وجوہات موجود ہیں۔
مرکزی حکومت کی وزارت داخلہ نے فرنٹ پر رواں برس 29 مارچ کو غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام سے متعلق ایکٹ کے تحت پابندی عائد کرنے کی ہدایت جاری کی تھی۔ اس سے قبل ایک اور کشمیر نشین سیاسی و سماجی تنظیم جماعت اسلامی پر بھی پابندی عائد کی گئی تھی۔
حکام نے ان دونوں تنظیموں کے سینکڑوں کارکنوں اور لیڈروں کو حراست میں لیا ہے۔
جے کے ایل ایف نے کشمیر میں 1989 میں بندوق متعارف کی تھی لیکن 1994 میں یاسین ملک نے بندوق ترک کرکے سیاسی طور سرگرمیاں شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔
دلی ہائی کورٹ کے جج چندر شیکھر کی صدارت والے ٹریبونل نے اس سلسلہ میں جاری نوٹفکیشن میں کہا کہ جے کے ایل ایف کی سرگرمیاں ملک مخالف ہیں اور یہ ملک کی خودمختاری اور سالمیت کے لیے خطرہ ہے۔
جج نے کہا کہ جے کے ایل ایف جموں و کشمیر میں امن اور ہم آہنگی خراب کرنے والی دیگر تنظیموں کے ساتھ سرگرم ہوکر کام کررہا ہے۔ مرکزی حکومت کے پاس اس تنظیم کے غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا کافی ثبوت ہیں۔
حکومت کا کہنا ہے کہ' جے کے ایل ایف شدت پسندانہ سرگرمیوں کی حمایت کرتی ہے اور کئی بار اس کے خلاف اس پر ایف آئی آر بھی درج ہوچکے ہیں۔ اس گروپ کے خلاف جو معاملات درج ہیں ان میں فضائیہ کے چار ملازموں کا قتل اور جموں و کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ مفتی محمد سعید کی بیٹی روبیہ سعید کے اغوا کا معاملہ بھی شامل ہے۔ یہ گروپ غیر ممالک سے شدت پسندی کو بڑھاوا دینے کے لیے فنڈ حاصل کرتا ہے اور اس پیسے کا شدت پسندی کو بڑھانے اور پتھر بازوں کی حوصلہ افزائی کرنے کے لئے استعمال کرتا ہے۔'