ETV Bharat / state

Policing Democracy پولیسنگ ڈیموکریسی، کیا بات چیت کی گنجائش ختم ہوگئی کے عنوان پر دہلی میں پریس کانفرنس - سماجی کارکنان کی جانب سے پریس کانفرنس

ایسوسی ایشن فار پروڈکشن سول رائٹس کے رکن ندیم خان نے کہا کہ آج کا دن خود کو یاد دلانے کا ہے کہ کس طرح تین سال پہلے لوگوں کو سی اے اے کے خلاف پرامن احتجاج کرنے پر وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا تین سال پہلے پولیس کی کاروائی سے ظاہر ہوتا ہے کہ پولیس کو کس قسم کی استثنیٰ حاصل ہے اس سے معاشرے کے ہر فرد کو تشویش ہونی چاہیے۔ہرتوش سنگھ بل نے کہا کہ عمر خالد جیسے سماجی کارکنان نے کبھی بھی آئین و دستور کے خلاف کچھ نہیں بولا ہے۔Press conference on behalf of social workers at the Press Club of India in Delhi

پولیسنگ ڈیموکریسی
پولیسنگ ڈیموکریسی
author img

By

Published : Dec 20, 2022, 10:49 PM IST

قومی دارلحکومت دہلی کے پریس کلب آف انڈیا میں پولیسنگ ڈیموکریسی، کیا بات چیت کی گنجائش ختم ہوگئی ہے؟ کے عنوان پر پریس کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں متعدد سماجی کارکنان نے شرکت کی۔یہ پریس کانفرنس آ ان لوگوں کے دفاع میں منعقد کی گئی تھی جنہیں اقلیتوں اور پسماندہ افراد پر حملوں کے خلاف بولنے کا جمہوری حق استعمال کرنے پر سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا ہے۔Press conference on behalf of social workers at the Press Club of India in Delhi

پولیسنگ ڈیموکریسی



ایسوسی ایشن فار پروڈکشن سول رائٹس کے رکن ندیم خان نے کہا کہ آج کا دن خود کو یاد دلانے کا ہے کہ کس طرح تین سال پہلے لوگوں کو سی اے اے کے خلاف پرامن احتجاج کرنے پر وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا تین سال پہلے پولیس کی کاروائی سے ظاہر ہوتا ہے کہ پولیس کو کس قسم کی استثنیٰ حاصل ہے اس سے معاشرے کے ہر فرد کو تشویش ہونی چاہیے۔ہرتوش سنگھ بل نے کہا کہ عمر خالد جیسے سماجی کارکنان نے کبھی بھی آئین و دستور کے خلاف کچھ نہیں بولا ہے ۔ہم بھی یہ بات کہتے ہیں لیکن صرف مسلمان ہونے کی بنیاد پر ان پر کارروائی کی گئی ہے البتہ آج جو بھی کچھ مسلمانوں کے ساتھ ہو رہا ہے وہ سب اشاروں پر ہو رہا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ آزادی کے وقت ہندوستان کے دو تصورات تھے ۔سب سے پہلے آئینی جمہوریت کا ویژن تھا جہاں سب کو برابر سمجھا جائے گا دوسرا وژن تھا جس کی آر ایس ایس نے حمایت کی تھی جہاں کچھ اعلی شہری سمجھا جائے گا دوسروں کو ان کے مذہب کی بنیاد پر کمتر سمجھا جائے گا یہ وہی ہے جو اب لاگو کیا جا رہا ہے۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی طالبہ وردہ بیگ نے کہا کہ آج ملک کی پولیس اسلاموفوبیا کے تحت کام کر رہی ہے۔ پولیس سیدھا بچوں اور نوجوانوں کو ٹارگٹ کر رہی ہے۔ جو نوجوان رہا ہوئے ہیں ان کے مطابق پولیس کی زبان بہت زیادہ خراب ہو گئی ہے یعنی ان کی زبان میں مسلمانوں کے تئیں نفرت پھیلی ہوئی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ جیلوں کا مقصد لوگوں کے جذبے کو توڑنے کے لئے ہوتا ہے لیکن یہ ہمارے ان دوستوں کی روح کو توڑنے میں ناکام رہی ہے جو شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کرنے پر جیل میں بند تھے۔
وہیں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طالب علم حارث جاوید نے 13 اور 15 دسمبر 2019 کو پولیس کے مظالم کی ہولناکیوں کو بیان کیا انہوں نے کہا کہ تمام مظالم کے بعد اب طلبہ کو ولن کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، اس دوران طلبہ نے اپنے ہاتھ آنکھیں کھو دی ہیں ہر سردیوں میں درد واپس آتا ہے اور اسی طرح وہ یادیں بھی آتی ہیں۔

مزید پڑھیں:دہلی: پولیس کی جانبدارانہ کارروائی کا ویڈیو وائرل

قومی دارلحکومت دہلی کے پریس کلب آف انڈیا میں پولیسنگ ڈیموکریسی، کیا بات چیت کی گنجائش ختم ہوگئی ہے؟ کے عنوان پر پریس کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں متعدد سماجی کارکنان نے شرکت کی۔یہ پریس کانفرنس آ ان لوگوں کے دفاع میں منعقد کی گئی تھی جنہیں اقلیتوں اور پسماندہ افراد پر حملوں کے خلاف بولنے کا جمہوری حق استعمال کرنے پر سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا ہے۔Press conference on behalf of social workers at the Press Club of India in Delhi

پولیسنگ ڈیموکریسی



ایسوسی ایشن فار پروڈکشن سول رائٹس کے رکن ندیم خان نے کہا کہ آج کا دن خود کو یاد دلانے کا ہے کہ کس طرح تین سال پہلے لوگوں کو سی اے اے کے خلاف پرامن احتجاج کرنے پر وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا تین سال پہلے پولیس کی کاروائی سے ظاہر ہوتا ہے کہ پولیس کو کس قسم کی استثنیٰ حاصل ہے اس سے معاشرے کے ہر فرد کو تشویش ہونی چاہیے۔ہرتوش سنگھ بل نے کہا کہ عمر خالد جیسے سماجی کارکنان نے کبھی بھی آئین و دستور کے خلاف کچھ نہیں بولا ہے ۔ہم بھی یہ بات کہتے ہیں لیکن صرف مسلمان ہونے کی بنیاد پر ان پر کارروائی کی گئی ہے البتہ آج جو بھی کچھ مسلمانوں کے ساتھ ہو رہا ہے وہ سب اشاروں پر ہو رہا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ آزادی کے وقت ہندوستان کے دو تصورات تھے ۔سب سے پہلے آئینی جمہوریت کا ویژن تھا جہاں سب کو برابر سمجھا جائے گا دوسرا وژن تھا جس کی آر ایس ایس نے حمایت کی تھی جہاں کچھ اعلی شہری سمجھا جائے گا دوسروں کو ان کے مذہب کی بنیاد پر کمتر سمجھا جائے گا یہ وہی ہے جو اب لاگو کیا جا رہا ہے۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی طالبہ وردہ بیگ نے کہا کہ آج ملک کی پولیس اسلاموفوبیا کے تحت کام کر رہی ہے۔ پولیس سیدھا بچوں اور نوجوانوں کو ٹارگٹ کر رہی ہے۔ جو نوجوان رہا ہوئے ہیں ان کے مطابق پولیس کی زبان بہت زیادہ خراب ہو گئی ہے یعنی ان کی زبان میں مسلمانوں کے تئیں نفرت پھیلی ہوئی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ جیلوں کا مقصد لوگوں کے جذبے کو توڑنے کے لئے ہوتا ہے لیکن یہ ہمارے ان دوستوں کی روح کو توڑنے میں ناکام رہی ہے جو شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کرنے پر جیل میں بند تھے۔
وہیں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طالب علم حارث جاوید نے 13 اور 15 دسمبر 2019 کو پولیس کے مظالم کی ہولناکیوں کو بیان کیا انہوں نے کہا کہ تمام مظالم کے بعد اب طلبہ کو ولن کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، اس دوران طلبہ نے اپنے ہاتھ آنکھیں کھو دی ہیں ہر سردیوں میں درد واپس آتا ہے اور اسی طرح وہ یادیں بھی آتی ہیں۔

مزید پڑھیں:دہلی: پولیس کی جانبدارانہ کارروائی کا ویڈیو وائرل

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.