قومی دارالحکومت دہلی میں پریس کلب آف انڈیا میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف کیے گئے احتجاج اور اس کے بعد شمال مشرقی دہلی میں ہوئے فرقہ وارانہ فسادات کے دوران لی گئی تصاویر کو میڈیا کے سامنے ایک نمائش کے طور پر رکھا گیا۔
اس نمائش کے دوران متعدد سماجی شخصیات نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ اس دوران ایک کتاب کا رسم اجرا بھی عمل میں آیا۔ یہ کتاب ان تصاویر کا مجموعہ ہے جو سی اے اے، این آر سی مخالف احتجاج اور دہلی فسادات کے دوران کھینچی گئی تھیں. Photo Book Depicting the Delhi Riots and Anti CAA Protests۔
اس کتاب میں 28 فوٹو گرافرز کی 223 تصاویر کو شامل کیا گیا ہے۔ اسے آصف مجتبیٰ اور محمد مہربان نے تیار کیا ہے۔
محمد مہربان نے بتایا کہ اس کتاب کو مرحوم دانش صدیقی Danish Siddiqui کو ڈیڈیکیٹ کیا گیا ہے جو ایک خبر رساں ایجنسی کے معروف فوٹو جرنلسٹ تھے اور کابل میں اپنی خدمات انجام دیتے ہوئے اس دنیا سے رخصت ہو گئے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: Danish Siddiqui Biography: کون تھے دانش صدیقی ؟
آصف مجتبیٰ نے بتایا کہ اس کتاب میں ان تمام حالات کو تصاویر کی شکل میں پیش کیا گیا ہے جو شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کے اور دہلی فسادات کے دوران دیکھنے کو ملا تھا۔
اس موقع پر معروف وکیل پرشانت بھوشن نے کہا کہ جو لوگ دہلی فسادات کے حقیقی ملزم ہے ان کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی کپل مشرا انوراگ ٹھاکر جیسے سبھی لوگ آج بھی آزاد گھوم رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ملک میں شہریت ترمیمی قانون کے ساتھ اگر این آر سی نافذ کرنے کی کوشش کی گئی تو اس کے خلاف پہلے کی طرح ہی احتجاجی مظاہرے کیے جائیں گے۔
اس کے علاوہ پروفیسر اپورو آنند نے کہا کہ یہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف کیے گئے احتجاج ہی تھے جس کے دباؤ میں ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں کی گئی اور این آر سی نہیں لایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ اگر اسے نافذ کیے جانے کے بارے میں سوچا جائے گا تو اس سے نہ صرف مسلمانوں کو پریشانی ہوگی بلکہ ان لوگوں کو بھی پریشانی اٹھانی پڑے گی جو غریب ہیں پڑھے لکھے نہیں ہیں۔