منعقدہ اجلاس میں ملک میں بڑھتی فرقہ پرستی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ کچھ طاقتیں بھارت کو ہندو راشٹر بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ اس سے ملک کے سیکولر جمہوری اور سماجی نظام کو زبردست خطرہ لاحق ہو جائے گا، آزاد بھارت کی بنیاد سیکولرازم پر رکھی گئی ہے، جہاں پر ہر مذہب و فرقہ کو نہ صرف مذہبی آزادی بلکہ اپنی رائے کے آزادانہ اظہار کا بھی پورا حق ہے، لیکن پچھلے کئی برسوں سے ملک میں اقلیتوں خاص کر مسلمانوں اور کمزور طبقہ کے لوگوں کو حاشیہ پر دھکیلنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
مشاورت کی مجلس عاملہ نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے 'سب کا ساتھ ،سب وکاس اور سب کا وشواس' کا نعرہ دیا ہے لیکن موجودہ حالات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حکمران جماعت اس کے برعکس کام کررہی ہے اور یہ صرف ایک نعرہ ہی ثابت ہوا ہے۔ حکومت اپنی دستوری ذمہ داریوں کو پوری کرنے میں ناکام رہی ہے جس کی وجہ سے اقلیتوں اور حکومت کے درمیان خلیج پیدا ہوئی ہے۔
مشاورت کی مجلس عاملہ کی میٹنگ میں ملک کے موجودہ حالات پر تفصیلی غور کیا اور اس بات پر رنج کا اظہار کیا گیا کہ موجودہ سیاسی نظام نفرت کی سیاست کو بڑھاوا دے رہا ہے اور اقلیتیں خاص کر مسلمان، عیسائی اور دوسرے طبقوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ملک کی کئی ریاستوں میں اقلیتوں کو لو جہاد اور 'گؤ رکشکوں' نے اپنا نشانہ بنایا، جس کی وجہ سے اقلیتوں میں حساس عدم تحفظ پیدا ہوا ہے۔
اجلاس میں کہا گیا کہ حکومت نے ان لوگوں کے خلاف کوئی کارروائی ہی نہیں کی بلکہ بے قصور اقلیتی لوگوں کے خلاف نہ صرف عدالتی کارروائیاں شروع کیں بلکہ انہیں جیلوں میں بھی ڈالا گیا۔ یہ بات اب عیاں ہوگئی ہے کہ حکمراں جماعت ہندو راشٹر کے ایجنڈے کو آگے بڑھا رہی ہے، جس سے جمہوری نظام کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔
اس کے علاوہ دیگر مختلف معاملات پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا جو درج ذیل ہیں۔
سی اے اے اور این آر سی
دہلی فساد
جموں اور کشمیر
مشاورت نے مرکزی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ جموں و کشمیر کو 5اگست 2019 سے پہلے کی قانونی حیثیت بحال کرے، اس سے ملک کے جمہوری ڈھانچے کو تقویت ملے گی۔ حکومت نے جس جلد بازی سے دفعہ 370 کو ہٹایا اور ریاست کو دو علاقوں میں تقسیم کیا گیا، یہ ایک نا قابل فہم قدم تھا۔ اس حساس ریاست میں غیر یقینی صورتحال پیدا ہوئی، مہینوں تک سرکاری دفاتر، تعلیمی ادارے، کاروبار ٹھپ رہے اور معمول کی زندگی پوری طرح سے درہم برہم ہوگئی۔
سینکڑوں سیاسی ورکرز کو جیل میں ڈالا گیا جبکہ مواصلاتی نظام کو بند کر دیا گیا، جس سے سیاحت اور تجارت کے علاوہ تعلیمی نظام بھی متاثر ہوا۔ حکومت نے پچھلے ڈیڑھ سال کے دوران میں بیرونی ملک کے سفارتکاروں کو وہاں جانے کی اجازت دی جبکہ ملک کے مختلف سیاسی رہنما اور انسانی حقوق سے تعلق رکھنے والے ورکرز کو وہاں جانے کی ابھی تک اجازت نہیں ملی ہے۔
مشاورت کا ماننا ہے کہ بھارت کے کئی ریاستوں کو (AJ)371 آرٹیکل کے تحت نوکری، تعلیم اور جائیداد کے کئی حقوق دیے گئے ہیں، اس کو مدنظر رکھ کر جموں و کشمیر کو بھی یہ سہولیات فراہم کیے جائیں۔
تبلیغی جماعت
مشاورت کی مجلس عاملہ نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ تبلیغی جماعت کے خلاف کچھ سیاسی جماعتوں نے دینی تنظیم کی شبیہ کو خراب کرنے کی مذموم کوشش کی اور بلاوجہ اس پر طرح طرح کے الزام لگائے، یہاں تک کہ بی جے پی کے کچھ رہنماﺅں نے اور عام آدمی پارٹی نے تبلیغی جماعت کو کورونا وائرس کے پھیلاﺅ کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا۔ یہ ایک غیر ذمہ دارانہ حرکت تھی، جس کی وجہ سے تبلیغی جماعت سے وابستہ افراد کو طرح طرح کے مقدمات کا سامنا کرنا پڑا اور ان میں سے بیشتر کو جیلوں میں بھی ڈالا گیا۔
اس جماعت کو کورونا وائرس کے لیے ذمہ دار ٹھہرانے کے لیے میڈیا کے ایک طبقہ کا بھی اہم رول رہا ہے حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے، کیوں کہ تبلیغی جماعت کے رہنماﺅں نے مرکزی حکومت و دہلی حکومت سے بار بار یہ اپیل کی ہے کہ ان کے مرکز میں جو لوگ مقیم ہیں، انہیں لاک ڈاﺅن سے پہلے اپنے جائے مقام پر پہنچائے لیکن اس کا کوئی اثر بھی نہیں ہوا۔
پچھلے ایک سال کے دوران جماعت سے وابستہ افراد کو رہائی نصیب ہوئی جبکہ ابھی بھی کچھ لوگ مختلف جیلوں میں بند ہیں۔
مشاورت نے حکومت سے اپیل کی کہ تبلیغی مرکز کو جلد از جلد کھولنے کی اجازت دی جائے۔
خلیجی ممالک میں اتحاد
آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت نے قطر اور سعودی عربیہ، متحدہ عرب امارات، بحرین اور مصر کے درمیان سفارتی تعلقات بحال کرنے پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وقت کی اہم ضرورت ہے کہ مسلم ممالک متحد ہو جائیں تاکہ مسائل کا مقابلہ کر سکیں۔ مشاورت محسوس کرتی ہے کہ اس ضمن میں کویت کے سابق امیر نے جو رول ادا کیا وہ قابل ستائش ہے۔
اس اجلاس کے اہم شرکاء میں مولانا اصغر علی امام مہدی (امیر،جماعت اہل حدیث)، فیروز احمد ایڈوکیٹ (صدر آل انڈیا مومن کانفرنس)، انجینئر سلیم (نائب صدر جماعت اسلامی ہند)، احمد رضا نصرت علی (سابق نائب امیر جماعت اسلامی ہند)، شیخ منظور احمد، عظمیٰ ناہد، سراج الدین قریشی (صدر آل انڈیا جمیعتہ القریش)، محمد سلیمان (صدر انڈین نیشنل لیگ)، تاج محمد ، مولانا عبدالحمید نعمانی وغیرہ شامل رہے۔