دارالحکومت دہلی میں غالب کی حویلی آج بھی موجود ہے، جہاں غالب نے کہا تھا کہ
پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے
کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا
اردو زبان و ادب کے مشہور و معروف الہامی شاعر مرزا اسد اللہ خان غالب کی یومِ وفات کے موقع پر پرانی دہلی کے بلی ماران علاقہ میں واقعہ ان کی حویلی سے ای ٹی وی بھارت نے غالب کی شاعری کے پرستار امیر احمد راجا سے بات کی۔
شاعری کا ذوق رکھنے والے امیر احمد 'راجا' تخلص رکھتے ہیں یہ پرانی دہلی کی ان تنگ گلیوں کی دیواروں پر بنے بلیک بورڈ پر روزانہ اشعار لکھا کرتے ہیں۔
امیر احمد کا دیواروں پر اشعار لکھنے کا سلسلہ بے حد قدیم ہے ان کا کہنا ہے کہ وہ اس لیے دیواروں پر غالب کے اشعار لکھتے ہیں، کیونکہ انہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نوجوان نسل اردو شاعری سے روبرو نہیں ہوپاتی۔
ان کا کہنا ہے کہ شاید اسی کوشش کے باعث ہی نوجوان نسل اردو شاعری میں دلچسپی لینے لگے۔
آپ دسمبر سنہ 1797 میں آگرہ میں پیدا ہوئے، غالب بچپن ہی میں یتیم ہو گئے تھے ان کی پرورش ان کے چچا مرزا نصر اللہ بیگ نے کی لیکن آٹھ برس کی عمر میں ان کے چچا بھی فوت ہو گئے۔
غالب شراب کے عادی تھے اور کثرت شراب نوشی کی بدولت ان کی صحت بالکل تباہ ہوگئی، یہاں تک کہ مرنے سے پہلے بے ہوشی طاری رہی اور اسی حالت میں 15 فروری سنہ 1869 کو انتقال کرگئے۔
غالبؔ ایک خوش خلق، خوش مزاج، فقیر دوست اور وسیع المشرب انسان تھے جن کی وفات نے ہر ایک شعبہ کو پرنم اور ہر ایک قلب کو غم اندوہ میں ڈوبو دیا، اپنے حیات میں ہی انہوں نے جتنی ناموری و شہرت پائی اس کا ہمسری کوئی دوسرا نہیں کرسکا اور آج بھی اُن کی عظمت کا ستارہ اپنے عروج پر ہے۔
ہوئی مدت کے غالب مر گیا پر یاد آتا ہے
وہ ہر ایک بات پر کہنا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا