ETV Bharat / state

اردو شاعری کے فروغ کا منفرد انداز

دور قدیم میں شعر و شاعری کا ذوق لوگوں کے سر چڑھ کر بولتا تھا لیکن آج عوام میں شاعری سے دلچسپی ختم ہوتی جارہی ہے۔

پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے  کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا
پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا
author img

By

Published : Feb 15, 2020, 8:23 PM IST

Updated : Mar 1, 2020, 11:25 AM IST

دارالحکومت دہلی میں غالب کی حویلی آج بھی موجود ہے، جہاں غالب نے کہا تھا کہ

پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے

کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا

ادرو شاعری کے فروغ کا منفرد انداز

اردو زبان و ادب کے مشہور و معروف الہامی شاعر مرزا اسد اللہ خان غالب کی یومِ وفات کے موقع پر پرانی دہلی کے بلی ماران علاقہ میں واقعہ ان کی حویلی سے ای ٹی وی بھارت نے غالب کی شاعری کے پرستار امیر احمد راجا سے بات کی۔

شاعری کا ذوق رکھنے والے امیر احمد 'راجا' تخلص رکھتے ہیں یہ پرانی دہلی کی ان تنگ گلیوں کی دیواروں پر بنے بلیک بورڈ پر روزانہ اشعار لکھا کرتے ہیں۔

غالب شراب کے عادی تھے اور کثرت شراب نوشی کی بدولت ان کی صحت بالکل تباہ ہوگئی، یہاں تک کہ مرنے سے پہلے بے ہوشی طاری رہی اور اسی حالت میں 15 فروری سنہ 1869 کو انتقال کرگئے
غالب شراب کے عادی تھے اور کثرت شراب نوشی کی بدولت ان کی صحت بالکل تباہ ہوگئی، یہاں تک کہ مرنے سے پہلے بے ہوشی طاری رہی اور اسی حالت میں 15 فروری سنہ 1869 کو انتقال کرگئے

امیر احمد کا دیواروں پر اشعار لکھنے کا سلسلہ بے حد قدیم ہے ان کا کہنا ہے کہ وہ اس لیے دیواروں پر غالب کے اشعار لکھتے ہیں، کیونکہ انہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نوجوان نسل اردو شاعری سے روبرو نہیں ہوپاتی۔

ان کا کہنا ہے کہ شاید اسی کوشش کے باعث ہی نوجوان نسل اردو شاعری میں دلچسپی لینے لگے۔

غالبؔ ایک خوش خلق، خوش مزاج، فقیر دوست اور وسیع المشرب انسان تھے جن کی وفات نے ہر ایک شعبہ کو پرنم اور ہر ایک قلب کو غم اندوہ میں ڈوبو دیا، اپنے حیات میں ہی انہوں نے جتنی ناموری و شہرت پائی اس کا ہمسری کوئی دوسرا نہیں کرسکا اور آج بھی اُن کی عظمت کا ستارہ اپنے عروج پر ہے
غالبؔ ایک خوش خلق، خوش مزاج، فقیر دوست اور وسیع المشرب انسان تھے جن کی وفات نے ہر ایک شعبہ کو پرنم اور ہر ایک قلب کو غم اندوہ میں ڈوبو دیا، اپنے حیات میں ہی انہوں نے جتنی ناموری و شہرت پائی اس کا ہمسری کوئی دوسرا نہیں کرسکا اور آج بھی اُن کی عظمت کا ستارہ اپنے عروج پر ہے

آپ دسمبر سنہ 1797 میں آگرہ میں پیدا ہوئے، غالب بچپن ہی میں یتیم ہو گئے تھے ان کی پرورش ان کے چچا مرزا نصر اللہ بیگ نے کی لیکن آٹھ برس کی عمر میں ان کے چچا بھی فوت ہو گئے۔

غالب شراب کے عادی تھے اور کثرت شراب نوشی کی بدولت ان کی صحت بالکل تباہ ہوگئی، یہاں تک کہ مرنے سے پہلے بے ہوشی طاری رہی اور اسی حالت میں 15 فروری سنہ 1869 کو انتقال کرگئے۔

دور قدیم میں شعر و شاعری کا ذوق لوگوں کے سر چڑھ کر بولتا تھا لیکن آج عوام میں شاعری سے دلچسپی ختم ہوتی جارہی ہے
دور قدیم میں شعر و شاعری کا ذوق لوگوں کے سر چڑھ کر بولتا تھا لیکن آج عوام میں شاعری سے دلچسپی ختم ہوتی جارہی ہے

غالبؔ ایک خوش خلق، خوش مزاج، فقیر دوست اور وسیع المشرب انسان تھے جن کی وفات نے ہر ایک شعبہ کو پرنم اور ہر ایک قلب کو غم اندوہ میں ڈوبو دیا، اپنے حیات میں ہی انہوں نے جتنی ناموری و شہرت پائی اس کا ہمسری کوئی دوسرا نہیں کرسکا اور آج بھی اُن کی عظمت کا ستارہ اپنے عروج پر ہے۔

ہوئی مدت کے غالب مر گیا پر یاد آتا ہے

وہ ہر ایک بات پر کہنا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا

دارالحکومت دہلی میں غالب کی حویلی آج بھی موجود ہے، جہاں غالب نے کہا تھا کہ

پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے

کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا

ادرو شاعری کے فروغ کا منفرد انداز

اردو زبان و ادب کے مشہور و معروف الہامی شاعر مرزا اسد اللہ خان غالب کی یومِ وفات کے موقع پر پرانی دہلی کے بلی ماران علاقہ میں واقعہ ان کی حویلی سے ای ٹی وی بھارت نے غالب کی شاعری کے پرستار امیر احمد راجا سے بات کی۔

شاعری کا ذوق رکھنے والے امیر احمد 'راجا' تخلص رکھتے ہیں یہ پرانی دہلی کی ان تنگ گلیوں کی دیواروں پر بنے بلیک بورڈ پر روزانہ اشعار لکھا کرتے ہیں۔

غالب شراب کے عادی تھے اور کثرت شراب نوشی کی بدولت ان کی صحت بالکل تباہ ہوگئی، یہاں تک کہ مرنے سے پہلے بے ہوشی طاری رہی اور اسی حالت میں 15 فروری سنہ 1869 کو انتقال کرگئے
غالب شراب کے عادی تھے اور کثرت شراب نوشی کی بدولت ان کی صحت بالکل تباہ ہوگئی، یہاں تک کہ مرنے سے پہلے بے ہوشی طاری رہی اور اسی حالت میں 15 فروری سنہ 1869 کو انتقال کرگئے

امیر احمد کا دیواروں پر اشعار لکھنے کا سلسلہ بے حد قدیم ہے ان کا کہنا ہے کہ وہ اس لیے دیواروں پر غالب کے اشعار لکھتے ہیں، کیونکہ انہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نوجوان نسل اردو شاعری سے روبرو نہیں ہوپاتی۔

ان کا کہنا ہے کہ شاید اسی کوشش کے باعث ہی نوجوان نسل اردو شاعری میں دلچسپی لینے لگے۔

غالبؔ ایک خوش خلق، خوش مزاج، فقیر دوست اور وسیع المشرب انسان تھے جن کی وفات نے ہر ایک شعبہ کو پرنم اور ہر ایک قلب کو غم اندوہ میں ڈوبو دیا، اپنے حیات میں ہی انہوں نے جتنی ناموری و شہرت پائی اس کا ہمسری کوئی دوسرا نہیں کرسکا اور آج بھی اُن کی عظمت کا ستارہ اپنے عروج پر ہے
غالبؔ ایک خوش خلق، خوش مزاج، فقیر دوست اور وسیع المشرب انسان تھے جن کی وفات نے ہر ایک شعبہ کو پرنم اور ہر ایک قلب کو غم اندوہ میں ڈوبو دیا، اپنے حیات میں ہی انہوں نے جتنی ناموری و شہرت پائی اس کا ہمسری کوئی دوسرا نہیں کرسکا اور آج بھی اُن کی عظمت کا ستارہ اپنے عروج پر ہے

آپ دسمبر سنہ 1797 میں آگرہ میں پیدا ہوئے، غالب بچپن ہی میں یتیم ہو گئے تھے ان کی پرورش ان کے چچا مرزا نصر اللہ بیگ نے کی لیکن آٹھ برس کی عمر میں ان کے چچا بھی فوت ہو گئے۔

غالب شراب کے عادی تھے اور کثرت شراب نوشی کی بدولت ان کی صحت بالکل تباہ ہوگئی، یہاں تک کہ مرنے سے پہلے بے ہوشی طاری رہی اور اسی حالت میں 15 فروری سنہ 1869 کو انتقال کرگئے۔

دور قدیم میں شعر و شاعری کا ذوق لوگوں کے سر چڑھ کر بولتا تھا لیکن آج عوام میں شاعری سے دلچسپی ختم ہوتی جارہی ہے
دور قدیم میں شعر و شاعری کا ذوق لوگوں کے سر چڑھ کر بولتا تھا لیکن آج عوام میں شاعری سے دلچسپی ختم ہوتی جارہی ہے

غالبؔ ایک خوش خلق، خوش مزاج، فقیر دوست اور وسیع المشرب انسان تھے جن کی وفات نے ہر ایک شعبہ کو پرنم اور ہر ایک قلب کو غم اندوہ میں ڈوبو دیا، اپنے حیات میں ہی انہوں نے جتنی ناموری و شہرت پائی اس کا ہمسری کوئی دوسرا نہیں کرسکا اور آج بھی اُن کی عظمت کا ستارہ اپنے عروج پر ہے۔

ہوئی مدت کے غالب مر گیا پر یاد آتا ہے

وہ ہر ایک بات پر کہنا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا

Last Updated : Mar 1, 2020, 11:25 AM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.