مذہب کی بنیادپر تفریق کرنے والے شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے)، نیشنل رجسٹر آف سٹیزن (این آر سی) اور نیشنل پالولیشن رجستر (این پی آر) کی موجودہ شکل کو ہم مستردکرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں ایسا کوئی بھی قانون منظور نہیں جو آئین کی بنیاد کے منافی اور شہریوں کے حقوق کو سلب کرنے والا ہو
خیال رہے کہ ان خیالات کا اظہار جمعیتہ علمائے ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے مجلس منتظمہ کے اختتامی اجلاس میں ممبئی کے تاریخی آزاد میدان میں منعقدہ تحفظ جمہوریت کانفرنس میں کہی۔
مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ ہند و مسلم اتحاد جمعیۃ علماء ہند کی بنیاد ہے اور آج انسانوں کے اس ٹھاٹھیں مارتے سمندر میں بھی ہند و مسلم اتحاد کا عملی مظاہرہ ہورہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جمعیۃعلماء ہند اسی اتحاد کے سہارے ان قوانین کے خلاف پورے ملک میں تحریک چلائے گی، انہوں نے کہا کہ ہم اب رکنے والے نہیں جب تک حکومت ان تینوں کو واپس نہیں لیتی ہماری تحریک جاری رہے گی، ہم جھکنے والے نہیں، جس طرح ملک کے ہند و اور مسلمانوں نے متحد ہوکر انگریزوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا تھا ہم اس حکومت کو بھی جھکنے پر مجبور کردیں گے۔
مولانا ارشد مدنی نے اس پس منظرمیں آسام کا حوالہ دیا اور کہا کہ وہاں کے ہندو اور مسلمان اس امتحان سے گزر چکے ہیں، جمعیۃ علماء ہند گزشتہ پچاس برس سے اس مسئلہ میں ان لوگوں کے ساتھ عملی طور پر شریک رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ نشانہ وہاں کے 70، 80 لاکھ مسلمانوں کو ریاست سے دربدر کردینے کا تھا، جمعیۃ علماء ہند نے اس کو لیکر مسلسل قانونی جدوجہد کی یہاں تک کہ گوہاٹی ہائی کورٹ کے فیصلہ سے جب 48 لاکھ خواتین کے سروں پر شہریت کھونے کی تلوار لٹکی تویہ جمعیۃ علماء ہند ہی تھی، جو سپریم کورٹ گئی اور اس فیصلہ کے خلاف کامیابی حاصل کی۔
مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ پنچایت سرٹیفیکٹ کو قانونی دستاویز تسلیم کرلیا گیا، اور ان 48 لاکھ میں تقریباً 20 لاکھ ہندو خواتین تھیں۔