دہلی:قومی دارالحکومت دہلی کے شمال مشرقی خطے میں سال 2020 میں ہوئے فرقہ وارانہ فسادات کو تین برس گزر چکے ہیں۔ اس فساد کو دہلی کی تاریخ کا سب سے بڑا فساد تسلیم کیا گیا ہے اس دوران 53 افراد کی موت اور سینکڑوں افراد زخمی ہوگئے تھے۔
فساد کے بعد دہلی میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کی آواز بلند کرنے والے سماجی کارکن اور نوجوان لیڈران کو پولیس نے نشانہ بنایا جن میں بیشتر افراد یو اے پی اے کے تحت جیل میں قید و بند کی صعوبتیں جھیلنے پر مجبور ہیں۔ انہی میں سے ایک نام جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبا رہنما میران حیدر کا بھی ہے۔ جو اب تک دہلی فسادات کے الزام میں یو اے پی اے کے تحت جیل میں قید ہیں۔
ای ٹی وی بھارت کے نمائندے نے میران حیدر کی بہن سے بات کی جس میں انہوں نے بتایا کہ میران حیدر کی درخواست کی ضمانت دہلی ہائی کورٹ میں داخل کی گئی تھی جس کی سماعت فروری کے ماہ میں ہی مکمل ہو چکی ہے۔ عدالت اپنا فیصلہ محفوظ رکھ لیا ہے لیکن اب 2 ماہ سے زیادہ کا وقت گزر چکا ہے ابھی تک فیصلہ نہیں سنایا گیا۔
میران کی بہن نے نمائندے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جب سے میران کی گرفتاری ہوئی ہے تب سے ہی ان کے والد شدید علیل ہیں اور مسلسل ان کی بیماری میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ان کے والد کو اس بات کا ملال ہے کہ ان کے بیٹے نے اپنے اور اس ملک میں رہنے والے تمام مسلمانوں کی آواز بلند کی اور اپنے حق کے لیے لڑے، اس کے باوجود انہیں سلاخوں کی پیچھے دھکیل دیا گیا۔
مزید پڑھیں:Delhi Riots 2020 ایس آئی او کی سیاسی قیدیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی
فرزانہ عدالت کی سست روی پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ پہلے ذیلی عدالت میں ایک طویل مدت درخواست ضمانت کی سماعت میں گزر گئی اس کے بعد جب دہلی ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا تو یہاں بھی وہی سست رفتار سے معاملہ کی سماعت مکمل ہوئی ہے۔ ایسے میں انہوں نے امید جتائی ہے کہ اگر جلد ہی دہلی ہائی کورٹ اپنا فیصلہ سنا دیتی ہے تو انہیں خوشی ہوگی۔