ETV Bharat / state

Zubair granted bail : محمد زبیر کو 2018 ٹویٹ کیس میں ضمانت - پٹیالہ ہاؤس کورٹ

پٹیالہ ہاؤس کورٹ کی سیشن کورٹ نے آلٹ نیوز کے شریک بانی محمد زبیر کو مبینہ ٹویٹ کیس میں ضمانت دے دی۔ Zubair granted bail in 2018 tweet case

محمد زبیر کو 2008 ٹوئٹ کیس میں ضمانت
محمد زبیر کو 2008 ٹوئٹ کیس میں ضمانت
author img

By

Published : Jul 15, 2022, 3:05 PM IST

Updated : Jul 15, 2022, 3:31 PM IST

نئی دہلی: پٹیالہ ہاؤس کورٹ کی سیشن عدالت نے جمعہ کو آلٹ نیوز کے شریک بانی محمد زبیر کو سنہ 2018 کے ایک قابل اعتراض مبینہ ٹویٹ کیس میں ضمانت دے دی ہے۔ تاہم وہ ایک اور کیس کی وجہ سے جیل میں ہی رہیں گے۔ ایڈیشنل سیشن جج دیویندر کمار جنگلا نے زبیر کو 50,000 روپے کے ضمانتی مچلکے اور ایک ضمانت پر راحت دی اور انہیں ہدایت دی کہ وہ اس کی پیشگی اجازت کے بغیر ملک سے باہر نہ جائیں۔

اس سے قبل ایک مجسٹریٹ عدالت نے 2 جولائی کو ان کی ضمانت کی درخواست کو مسترد کر دیا تھا اور ان کے خلاف جرائم کی نوعیت اور سنگینی کا حوالہ دیتے ہوئے 14 دن کی عدالتی تحویل میں بھیج دیا تھا۔ وہیں محمد زبیر کے وکیل نے کہا تھا کہ زبیر کے جس ٹوئٹ کو لے کر ایف آئی آر درج کی گئی ہے وہ سنہ 1983 میں بنی فلم 'کسی سے نہ کہنا' سے لی گئی ہے، 2 جولائی کو دہلی میں درج ایف آئی آر کے معاملے پر پٹیالہ ہاؤس کورٹ کے چیف میٹروپولین مجسٹریٹ سنیگدھا سروریہ نے زبیر کی عرضی کو خارج کردیا تھا، زبیر کو 27 جون کو گرفتار کیا گیا تھا۔

محمد زبیر پر مبینہ طور پر مذہبی جذبات کو بھڑکانے کا الزام ہے،وہیں دہلی پولیس کی اسپیشل سیل نے زبیر کے خلاف تعزیرات ہند کی دفعہ 120 بی، 201 اور ایف سی آر اے کی دفعہ 35 کی دفعات کو بھی شامل کیا ہے۔ زبیر کے خلاف اتر پردیش کے سیتا پور میں ایف آئی آر بھی درج کی گئی ہے۔ یہ ایف آئی آر تین سنتوں کو ہیٹ مانگر کے طور پر ٹویٹ کرنے کے معاملے میں درج کی گئی ہے۔ سیتا پور میں درج ایف آئی آر کے معاملے میں سپریم کورٹ نے 12 جولائی کو زبیر کو اگلے احکامات تک عبوری ضمانت دی تھی۔ سیتا پور کے علاوہ یوپی میں زبیر کے خلاف ایک اور ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔

محمد زبیر نے 14 جولائی کو سپریم کورٹ میں ایک عرضی دائر کی تھی جس میں ان چھ ایف آئی آر کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا جو ان کے خلاف اتر پردیش کے مختلف اضلاع میں مبینہ طور پر مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے الزام میں درج کی گئی تھیں۔ انہوں نے ہر کیس میں عبوری ضمانت کی درخواست بھی کی۔ یہ کارروائی اس وقت سامنے آئی جب زبیر کو اتر پردیش کے ہاتھرس کی ایک عدالت نے 14 دن کے لیے عدالتی حراست میں رکھا تھا۔ زبیر کو تہاڑ جیل سے دہلی پولیس کے ایک دستہ کے ساتھ ہاتھرس کی عدالت میں لے جایا گیا اور پھر عدالت کی سماعت کے بعد واپس لایا گیا۔

قابل ذکر ہے کہ درخواست ضمانت پر دلائل سننے کے بعد جج نے پراسیکیوشن سے ان دعوؤں کے بارے میں سوال کیا کہ زبیر لوگوں کو اکسانا اور ان کے درمیان اختلاف پھیلانا چاہتا تھا۔ پبلک پراسیکیوٹر اتل سریواستو نے دعویٰ کیا کہ دہلی پولیس نے ان لوگوں کے بیانات اکٹھے کیے ہیں جو مبینہ طور پر قابل اعتراض ٹویٹ سے ناراض ہوئے تھے۔ جس پر سوال کرتے ہوئے جج نے پوچھا "کتنے لوگ ناراض ہوئے؟ آپ نے کتنے بیانات جمع کیے؟"

محمد زبیر کی طرف سے پیش ہونے والی ایڈووکیٹ ورندا گروور نے کہا کہ زبیر کی چار سال پرانے ٹویٹ کو ایک گمنام ٹویٹر صارف نے کھوجا، جو اس کا اکاؤنٹ بنانے کے بعد ان کا پہلا ٹویٹ تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ "کسی نے چار سال پرانی ٹویٹ کو ڈھونڈ لیا، اور مجھ پر (زبیر) ملک میں بدامنی پھیلانے کا الزام لگایا جا رہا ہے"۔

ایک مجسٹریل عدالت نے 2 جولائی کو زبیر کی درخواست ضمانت مسترد کر دی تھی اور پانچ دن کی تحویل میں پوچھ گچھ ختم ہونے کے بعد اسے 14 دن کی عدالتی تحویل میں بھیج دیا تھا۔ دہلی پولیس نے زبیر کو 27 جون کو اپنے ایک ٹویٹ کے ذریعے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔

سپریم کورٹ میں، زبیر کی درخواست میں یوپی حکومت کی طرف سے ریاست میں ان کے خلاف درج چھ مقدمات کی جانچ کے لیے خصوصی تحقیقاتی ٹیم (ایس آئی ٹی) کی تشکیل کو بھی چیلنج کیا گیا تھا۔

نئی دہلی: پٹیالہ ہاؤس کورٹ کی سیشن عدالت نے جمعہ کو آلٹ نیوز کے شریک بانی محمد زبیر کو سنہ 2018 کے ایک قابل اعتراض مبینہ ٹویٹ کیس میں ضمانت دے دی ہے۔ تاہم وہ ایک اور کیس کی وجہ سے جیل میں ہی رہیں گے۔ ایڈیشنل سیشن جج دیویندر کمار جنگلا نے زبیر کو 50,000 روپے کے ضمانتی مچلکے اور ایک ضمانت پر راحت دی اور انہیں ہدایت دی کہ وہ اس کی پیشگی اجازت کے بغیر ملک سے باہر نہ جائیں۔

اس سے قبل ایک مجسٹریٹ عدالت نے 2 جولائی کو ان کی ضمانت کی درخواست کو مسترد کر دیا تھا اور ان کے خلاف جرائم کی نوعیت اور سنگینی کا حوالہ دیتے ہوئے 14 دن کی عدالتی تحویل میں بھیج دیا تھا۔ وہیں محمد زبیر کے وکیل نے کہا تھا کہ زبیر کے جس ٹوئٹ کو لے کر ایف آئی آر درج کی گئی ہے وہ سنہ 1983 میں بنی فلم 'کسی سے نہ کہنا' سے لی گئی ہے، 2 جولائی کو دہلی میں درج ایف آئی آر کے معاملے پر پٹیالہ ہاؤس کورٹ کے چیف میٹروپولین مجسٹریٹ سنیگدھا سروریہ نے زبیر کی عرضی کو خارج کردیا تھا، زبیر کو 27 جون کو گرفتار کیا گیا تھا۔

محمد زبیر پر مبینہ طور پر مذہبی جذبات کو بھڑکانے کا الزام ہے،وہیں دہلی پولیس کی اسپیشل سیل نے زبیر کے خلاف تعزیرات ہند کی دفعہ 120 بی، 201 اور ایف سی آر اے کی دفعہ 35 کی دفعات کو بھی شامل کیا ہے۔ زبیر کے خلاف اتر پردیش کے سیتا پور میں ایف آئی آر بھی درج کی گئی ہے۔ یہ ایف آئی آر تین سنتوں کو ہیٹ مانگر کے طور پر ٹویٹ کرنے کے معاملے میں درج کی گئی ہے۔ سیتا پور میں درج ایف آئی آر کے معاملے میں سپریم کورٹ نے 12 جولائی کو زبیر کو اگلے احکامات تک عبوری ضمانت دی تھی۔ سیتا پور کے علاوہ یوپی میں زبیر کے خلاف ایک اور ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔

محمد زبیر نے 14 جولائی کو سپریم کورٹ میں ایک عرضی دائر کی تھی جس میں ان چھ ایف آئی آر کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا جو ان کے خلاف اتر پردیش کے مختلف اضلاع میں مبینہ طور پر مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے الزام میں درج کی گئی تھیں۔ انہوں نے ہر کیس میں عبوری ضمانت کی درخواست بھی کی۔ یہ کارروائی اس وقت سامنے آئی جب زبیر کو اتر پردیش کے ہاتھرس کی ایک عدالت نے 14 دن کے لیے عدالتی حراست میں رکھا تھا۔ زبیر کو تہاڑ جیل سے دہلی پولیس کے ایک دستہ کے ساتھ ہاتھرس کی عدالت میں لے جایا گیا اور پھر عدالت کی سماعت کے بعد واپس لایا گیا۔

قابل ذکر ہے کہ درخواست ضمانت پر دلائل سننے کے بعد جج نے پراسیکیوشن سے ان دعوؤں کے بارے میں سوال کیا کہ زبیر لوگوں کو اکسانا اور ان کے درمیان اختلاف پھیلانا چاہتا تھا۔ پبلک پراسیکیوٹر اتل سریواستو نے دعویٰ کیا کہ دہلی پولیس نے ان لوگوں کے بیانات اکٹھے کیے ہیں جو مبینہ طور پر قابل اعتراض ٹویٹ سے ناراض ہوئے تھے۔ جس پر سوال کرتے ہوئے جج نے پوچھا "کتنے لوگ ناراض ہوئے؟ آپ نے کتنے بیانات جمع کیے؟"

محمد زبیر کی طرف سے پیش ہونے والی ایڈووکیٹ ورندا گروور نے کہا کہ زبیر کی چار سال پرانے ٹویٹ کو ایک گمنام ٹویٹر صارف نے کھوجا، جو اس کا اکاؤنٹ بنانے کے بعد ان کا پہلا ٹویٹ تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ "کسی نے چار سال پرانی ٹویٹ کو ڈھونڈ لیا، اور مجھ پر (زبیر) ملک میں بدامنی پھیلانے کا الزام لگایا جا رہا ہے"۔

ایک مجسٹریل عدالت نے 2 جولائی کو زبیر کی درخواست ضمانت مسترد کر دی تھی اور پانچ دن کی تحویل میں پوچھ گچھ ختم ہونے کے بعد اسے 14 دن کی عدالتی تحویل میں بھیج دیا تھا۔ دہلی پولیس نے زبیر کو 27 جون کو اپنے ایک ٹویٹ کے ذریعے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔

سپریم کورٹ میں، زبیر کی درخواست میں یوپی حکومت کی طرف سے ریاست میں ان کے خلاف درج چھ مقدمات کی جانچ کے لیے خصوصی تحقیقاتی ٹیم (ایس آئی ٹی) کی تشکیل کو بھی چیلنج کیا گیا تھا۔

Last Updated : Jul 15, 2022, 3:31 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.