دہلی فسادات کو تقریباً ڈھائی برس مکمل ہو چکے ہیں لیکن ابھی تک اس معاملے میں اصل مجرمین کو سزا نہیں سنائی گئی ہے، حالانکہ جن سماجی کارکنان کو دہلی پولیس نے گرفتار کیا تھا وہ بھی طویل عرصہ سے جیل میں ہیں، لیکن ان کے خلاف بھی ابھی تک کوئی جرم ثابت نہیں ہو سکا ہے، ایسے میں سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل پرشانت بھوشن نے نئی دہلی میں ایک تقریب کے دوران پولیس کی کارروائی پر سوال کھڑے کیے ہیں۔ Renowned lawyer Prashant Bhushan reacts to Delhi riots charge sheet
پرشانت بھوشن نے دہلی فسادات کے الزام میں گرفتار تمام ملزمین کے خلاف دائر چارج شیٹ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اگر میں جج ہوتا تو 5 لاکھ صفحات پر مشتمل اس چارج شیٹ کو اٹھا کر پھینک دیتا، انہوں نے کہا کہ دہلی فسادات کے الزام میں گرفتار تمام ملزمین کو ایک ہی چارج شیٹ میں شامل کردیا گیا ہے جب کہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ سبھی ملزمان کے خلاف الگ الگ چارج شیٹ فائل کی جاتی۔ان کا کہنا تھا کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی اس پانچ لاکھ صفحات پر مشتمل چارج شیٹ کو پڑھے یہ صرف اور صرف کیس کو طویل مدت تک ملتوی کرنے کی ایک سازش ہے، پرشانت بھوشن نے کہا کہ سبھی ملزمین کے خلاف اتنی ساری دفعات کے تحت کیس درج کیا گیا ہے جس میں قتل، اقدام قتل، ڈکیٹی، آتشزدگی، فساد، اور دیگر ایسی کئی دفعات ان پر لگا دی گئیں، اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ تمام لوگ ان سبھی الزامات میں ملوث تھے؟ انہوں نے کہا کہ جان بوجھ کر ان تمام لوگوں پر ایک ہی چارج شیٹ اس لیے داخل کی گئی ہے کہ 10 بیس برس تک اس کیس میں ٹرائل چلتا رہے اور وہ لوگ باہر نہیں آ پائیں۔
مزید پڑھیں:Delhi Riots: دہلی فسادات پر پولیس نے تیسری ضمنی چارج شیٹ داخل کی
انہوں نے مزید کہا کہ اب تو خود عدالت عظمیٰ بھی کہہ چکی ہے کہ پروسیس ہی سزا بن گیا ہے، یعنی کہ یہ جو پروسیس ہے انویسٹیگیشن کرنے کا، چارج شیٹ کرنے کا اور ٹرائل کا یہی سزا ہو گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب تک ان افسران پر کوئی کارروائی نہیں ہوگی اور انہیں سزا نہیں دی جائے گی جو اتنی طویل چارچ شیٹس داخل کرکے کیس کو صرف ملتوی کرنا چاہتے ہیں تب تک کچھ بھی نہیں ہونے والا ہے۔